ملائکہ جنات اورانسان
”اگر
ہم چاہیں تو تم سے فرشتے نکالیں (بدل دیں) جو زمین پر رہیں تمہاری جگہ“۔ (الزخروف:
60)
”اگر ہوتے زمین پر فرشتے رہتے بستے تو ہم ان کی
راہنمائی کے لئے آسمان سے کوئی فرشتہ ہی اتارتے“۔ (بنی اسرائیل: 9)
تخلیق
کی نسبت سے کائنات میں چار بڑی ذی شعور زندگی کی اقسام کی موجودگی و ماہیت پر قرآن
حکیم میں اشارات ملتے ہیں۔ جیسے ملائکہ، جنات، انسان اور دابہ (خلائی مخلوقات)۔
بیشک دیگر مخلوقات کے نام بھی آئے ہیں مثلاً روح، نفس، حور، قیصرات، غلماں وغیرہ۔
لیکن ان سب کا تعلق مابعد الموت کی کائنات سے ہے اس لئے ان سب کی ماہیت و کیفیت پر
گرفت پانا انسانی ذہن کی دسترس سے باہر ہے۔ شاید اس لئے ان کے تخلیقی موضوع پر
کوئی ذکر نہیں ملتا۔ صرف ایک حوالہ سے ہی بات کو ختم کر دیا گیا کہ انسان کو بہت
تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ملائکہ، فرشتوں کا ہماری زندگی میں گہرا
عمل دخل ہے۔ اس پر ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔ لیکن ان کی تخلیق پر کوئی حوالہ قرآن
مجید میں نہیں ہے۔ آئیں اس موضوع پر قرآن و حدیث اور جدید انسانی علوم کی روشنی
میں مہیا معلومات کو جمع کرتے ہیں۔
لفظ ”نور“ کی توجیح:
عام معلوماتی لحاظ سے ہم یہ کہہ کر بات مکمل کر دیتے ہیں کہ ملائکہ
نور سے بنے ہیں۔ بات تو درست ہے لیکن لفظ نور سے کیا مراد ہے؟
ہم
دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ اپنے دامن میں وسیع معانی و مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔ اللہ
تعالیٰ نور سے پکارے جاتے ہیں۔ قرآن و الحامی کتابوں کو نور کہا گیا ہے۔ ایمان کے
لئے نور کا لفظ آیا ہے۔ علم کو بھی نور کہتے ہیں۔ نبیوں و رسولوں کو نور کہا جاتا
ہے۔ کائنات میں جاری و ساری توانائی بھی نور ہے۔ روشنی کو نور کہتے ہیں۔ چاند کے
نور کا ذکر بھی موجود ہے جیسے:
”سورج
کو ضیاءاور چاند کو نور ٹھہرایا“۔ (یونس: 5 )
یہاں پر سورج کی روشنی کو ضیاءکہا گیا۔ اس میں کیا
معانی پوشیدہ ہو سکتے ہیں؟
جدید
سائنس کی رو سے روشنی کا دارومدار ”فوٹون“ ذرات پر ہے۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق
سورج سے فوٹون کے علاوہ بے شمار برقی و ایٹمی ذرات اور متفرق شعائیں خارج ہوتی
ہیں۔ اس لئے ان سب کو مجموعی طور پر ضیاءکہا گیا ہے۔ چاند کی منعکس روشنی دیگر سب
ذرات و شعاعوں سے فلٹر شدہ صرف فوٹون پر مشتمل ہوتی ہے۔ باقی اجزاءچاند کی سطح پر
جذب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے آپ اسے بطور سہولت خالص روشنی بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاید اسی
وجہ سے اس کے لئے نور کا لفظ استعمال ہوا۔
لفظ ”نور“ کی اس وسیع تعریف و معانی سے بات مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ایسے پتہ چلتا
ہے کہ بعض مقامات پر لفظ ملائکہ نئے مفہوم میں استعاری طور پر مافوق الفطرت وضع کی
دیگر مخلوقات کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جن کی متفرق انواع کے لئے مخصوص درجہ
بندی ہو سکتی ہے۔ ہاروت و ماروت کے بیان میں بھی کچھ مفسرین نے ایسے ہی خیالات کا
اظہار کیا ہے۔
آسمانی ملائکہ:
اسلام
میں چار مشہور و جلیل القدر ملائکہ کے نام آتے ہیں۔ جیسے حضرت جبرائیل ؑ، میکائیل
ؑ، عزرائیل ؑ اور اسرافیل ؑ۔ اسلامی روایات میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ کا سدرة
المنتہیٰ تک تصرف ہے۔ انہیں سب آسمانوں کی بستیوں میں اللہ تعالیٰ کے احکامات و
قوانین جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
آیت
(1) ”مجھ کو اوپر مجلس اعلیٰ کی کچھ خبر نہ تھی جب وہ آپس میں بحث و مباحث کرتے
ہیں“۔ (ص 69)
آیت (2) ”تو نے غرور کیا یا تو بڑے درجہ والوں میں سے ہے“۔ (ص 75)
بے
پناہ طاقتوں کے حامل یہ ملائکہ کرام اور دیگر اس درجے کے ملائکہ اپنے گروہ کے ساتھ
اعلیٰ سطحی کونسل یا مجلس اعلیٰ کے رکن ممبر ہیں۔ جنہیں ”بڑے درجہ والوں“ کا خطاب
دیا گیا ہے۔ یہ سب بڑے درجہ والے ملائکہ اکرام، اللہ تعالیٰ کے حکم و منشاءسے
کائنات اور اس کے جملہ مسائل کی تفصیلات طے کرنے اور امر ربی کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے پر مقرر ہیں۔ متفرق معاملات طے کرنے کے لئے ان میں بحث و تکرار کی مجالس
یا میٹنگ بھی ہوتی ہیں (آیت نمبر (1۔ بڑے درجہ کی مجلس اعلیٰ کے یہ ارکان انسانی
سجدے کے واقعہ سے مستثنیٰ تھے (آیت نمبر (2۔ اسلامی روایات کے مطابق حضرت جبریل
امین کو کائنات کے ایک حصے سے سدرة المنتہیٰ تلک۔ نبی آخر الزمان نے اس کی اصل
حالت میں مشاہدہ کیا تھا۔ بے شک وہ ایک بے پناہ قوت کی مالک آسمانی ہستی ہیں۔
عزرائیل ؑبھی مہیب طاقتوں کے مالک ہیں۔ جو سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں لاکھوں
انسانوں کی روح بیک وقت نکال لینے پر قدرت رکھتے ہیں۔ جیسے جاپانی شہروں ہیرو شیما
اور ناگاساکی میں ایٹمی حملے سے لاکھوں آدمی پل بھر میں ہلاک ہو گئے۔ ایٹمی دھماکے
کا شدید ترین دباؤ، درجہ حرارت، مہلک ایٹمی شعائیں و ذرات ان آسمانی ہستیوں کے
سامنے ایک بے معنی و انہونی بات ہے۔ جہنم کی ڈیوٹی پر مامور سخت جان، بے رحم اور
تندخو ملائکہ کا ذکر بھی آیا ہے۔ جو بھڑکتی آگ کے خوفناک ماحول میں ایسے مصروف کار
ہوں گے جیسے پرندے ہوا میں یا مچھلی پانی میں مزے سے گھومتی پھرتی ہے۔ ہمارا ایمان
ہے کہ جان کنی کے وقت یہ ملائکہ ہماری جان نکالنے کیلئے مصروف ہوتے ہیں۔ نامہ
اعمال درج کرنے والے ملائکہ بھی ہمہ وقت کتابت میں مصروف ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔
لیکن ہماری کوئی بھی جدید ترین مشین برقی مقناطیسی یا ایٹمی شعاعیں ان کے وجود کا
سراغ نہیں لگا سکتیں۔ یہ سب ملائکہ کسی نامعلوم شے سے تخلیق ہوئے ہیں۔ ان پر ہماری
اس موجود کائنات کے کلیے و قوانین لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ وقت، مادہ، توانائی و طاقت
ان کے سامنے بالکل بے اثر ہے۔ سہولت اور اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق ہم ان کے
تخلیقی عنصر یا ”شے“ کو آسمانی نور کہہ لیتے ہیں۔ یہ سب ہستیاں ہر وقت اللہ تعالیٰ
کی عبادت و حمد و ثناءمیں مصروف رہتی ہیں۔ دیگر کسی ارادہ و خیال کا ان میں شائبہ
تک نہیں ہوتا۔ ساتویں آسمان یا کائنات اور عرض بریں تک ان کا تصرف ہے۔
پلازمک ملائکہ:
ان
آسمانی ملائکہ کے بعد دوسرے درجہ پر خالص آگ یا توانائی سے تخلیق شدہ مخلوق جنات
کے لئے بھی ملائکہ کا لفظ استعمال ہوا ہے: جیسے:”اور ہم نے جب فرشتوں کو کہا کہ
آدمؑ کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا (اور) وہ جنات میں سے تھا“۔
(الکھف: 50)
ٹھوس، مائع اور گیس کے بعد کائناتی مادے کی چوتھی حالت یا نیم مادے و توانائی کو
پلازمہ کہتے ہیں۔ اس میں کسی گیس، دھوئیں اور دیگر مواد کا وجود نہیں ہوتا۔ اس لئے
اسے ”خالص آگ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی کی نسبت سے بطور سہولت ہم اسے
”کائناتی انرجی“ کا نام دے لیتے ہیں۔
کائناتی
توانائی کی اس پلازک مخلوق نے عبادت و ریاضت سے دربار الٰہی میں خاصی مقبولیت حاصل
کر لی تھی۔ لیکن ان میں اپنے ذاتی ارادہ و خیال کی آزادی اور پسند ناپسند کا عنصر
بھی موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر ان میں منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے
ایک موقع پر خدائی حکم سے نہ صرف کھلم کھلا بغاوت کر دی بلکہ حکم الٰہی کا تجزیہ
بھی شروع کر دیا۔ جیسے:
”کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔ بولا (بھلا ذرا) دیکھ تو اس کو جو
تو نے مجھ سے معزز کیا“۔ (بنی اسرائیل: 61-62)
ابلیس بولا میرے مقابل انسان کی اوقات ہی کیا ہے کہ میں اسے سجدہ کروں! اس جواب کے
بعد یہ معتوب نظر ہو کے اپنے عمدہ مقام سے گر گئے۔ لیکن بلحاظ طاقت و استطاعت یہ
آسمان دنیا میں گھوم پھر لیتے ہیں۔ بعض آسمانی خبروں یا پیغامات کی بھنک پا لینے
کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ جیسے:”مگر جو کوئی اچک لایا (آسمانی خبر) جھپٹ کے“۔ (الصفت:
10)
اس آتشیں مخلوق کا مادہ و توانائی اور وقت پر جزوی کنٹرول ثابت ہوتا ہے۔ جو آسمانی
نور سے تخلیق ملائکہ کے درجے تک نہیں۔ ہم مادی مخلوقات تین سمتی (Three Dimensional) کائنات میں رہتے ہیں۔ جبکہ ”کائناتی انرجی“
کی یہ آتشیں مخلوق کئی سمتی کائنات یا ہائپر اسپیس (Hyper Space) میں رہتے ہیں۔ جیسے:
”وہ
(شیطان) اور اس کا گروہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں پر تم انہیں نہیں دیکھ
سکتے“۔ (الاعراف: 27)
لیکن آسمانی نور کے ملائکہ یعنی فرشتوں کی ہائپر اسپیس تک ان کی رسائی ثابت نہیں
ہوتی۔ مثلاً جان کنی کے مناظر، نامہ اعمال اور دیگر بے شمار ایسے مواقع اس مخلوق
کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ جب حضرت سلیمان ؑکی وفات ہوئی تو آسمانی نور کے
ملائکہ عزرائیل ؑ اور ان کے گروہ کی آمدورفت کو یہ لوگ نہ دیکھ سکے۔ شاید ہائپر
اسپیس کے ایک طبقے یا حصے تک ان کی رسائی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہے کہ ابلیس
ہماری آخری سانس تک ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ گویا یہ ہماری جان
کنی کے آخری لمحے تک موجود رہ کر ملاحظہ کرتا رہتا ہے لیکن حضرت سلیمان ؑ کی
زیرنگرانی کام کرنے والے گروہ شیاطین کے دوسرے ارکان کے سامنے آپ موت کی واقع
ہوئی۔ مگر وہ موت کے فرشتوں کی آہٹ تک نہ پا سکے۔ ابلیس اور اس کے ساتھیوں نے بھی
اپنی ہی قسم کے ان شیاطین ارکان کو مطلع نہ کیا۔ اس کی کیا توجیح ہو سکتی ہے؟ کیا
ان میں دو مختلف انواع ہیں؟ شاید گروہ ابلیس کا رہن سہن اور کارکردگی ہائپر اسپیس
کے اس طبقے تک ہے جس کی حدود آسمانی نور کے ملائکہ تک جا ملتی ہے۔ انہیں کسی جگہ
یا مقام سے منسلک ہو کر رہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کا اپنا غیرجسمانی گروہ یا طبقہ
ہے۔ جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زیرنگرانی کام میں مصروف شیاطین کسی دوسرے
گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جو شاید ہائپر اسپیس کی ابتدائی منزل تک پہنچ پاتے ہیں۔
یہ نوع شیاطین یا آتشیں مخلوق کسی نہ کسی جگہ مقام یا سطح زمین سے منسلک ہو کر
اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں ہم عرف عام میں دیو، عفریت، جنات وغیرہ کہتے ہیں۔
حضرت سلیمان ؑ کے ماتحت اس مخلوق کے مختلف پیشہ ور احباب، ہواباز، غوطہ خور،
معمار، ماہر تعمیرات وغیرہ موجود تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ جسمانی وجود
رکھتا ہے۔ اس لئے یہ گروہ شیاطین کسی زمین پر ہماری وضع قطع کی زندگیاں گزارتے
ہیں۔
شیاطین کی ان دو انواع یا اقسام میں ہر وقت کوئی واسطہ یا رابطہ نہیں ہوتا۔ ممکن
ہے اس کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو۔ مثلاً نیویارک و ٹورنٹو کے جدید ترین مال (Mall) میں شاپنگ کرتے ہوئے کسی ملٹی نیشنل کمپنی
کے چیئرمین کو، کانگو یا بورنیو کے جنگلات میں خرگوش کا پیچھا کرتے ہوئے ایک ننگ
دھڑنگ آدمی سے کتنا واسطہ یا رابطہ رہتا ہے؟ کیا اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ دونوں
اپنی اپنی دنیا و احوال میں مگن ہیں۔ اسی طرح ایک طرف تو انسان اب چاند سے ہوتا
ہوا دوسرے سیاروں کے لئے رخت سفر باندھ رہا ہے۔ لیکن اسی وقت دوسری سمت میں انسان
غاروں میں رہ کے جنگلی پھلوں و بیریوں پر گزارہ کر رہا ہے۔ قرآن کریم بھی ان دو
انواع شیاطین کا ذکر کر رہا ہے۔ جیسے:
”گمراہ
کر لے ان کو (انسانوں) اپنی آواز سے تجھ میں جتنی ہمت ہے اور لے آیا ان پر اپنے
سوار (خیلک) اور پیادے (رجلک)“۔ (بنی اسرائیل64 )
خیلک
غیر جسمانی ابلیسی گروہ کے شاید وہ ارکان ہیں جو توانائی کی لہروں پر سوار ہائپر
اسپیس کی گہرائی تک رسائی رکھتے ہیں۔ رجلک جسمانی وجود کے مالک انہی کی دوسری قسم
یا نوع ہو سکتی ہے۔ یہ گروپ کسی خطہ زمین سے منسلک ہو کر رہتا ہے۔ اسی گروپ یا
طبقے کے ارکان حضرت سلیمان ؑ کے لئے کام کر رہے تھے۔ ان وجوہات کی بناءپر ”کائناتی
توانائی“ یا پلازمک آتشیں مخلوق کی یہ نوع ہماری کہکشاں کی مختلف زمینوں پر موجود
ہو سکتیں ہیں۔ ایسی زمینیں یا جگہیں جہاں پر انہیں اپنے جسم اور زندگی کی دیگر
ضروریات سہولت سے میسر ہوں۔ جیسے زمین کی مٹی سے تخلیق انسان کے لئے مٹی ہی کے
مختلف نامیاتی و غیرنامیاتی اجزاءسبزہ، غلہ، پانی، ہوا وغیرہ کا ہونا لازمی ہے۔
اسی طرح پلازمے (خالص آگ) سے وجود میں آئی مخلوق کے لئے ایک پلازمک ماحول کا ہونا
ضروری ہے۔ ایک ایسی زمین جہاں پر برقی مقناطیسی شعائیں و ذرات، ایٹمی ذرات،
مائیکرو ویوز، ایکس ریز وغیرہ کی بہتات ہو۔ شاید ایسی شعائیں اور ذرات ان کی خوراک
یا بدنی طاقت حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہوں۔ ہمارے قریب ترین سیارے مریخ اور
دیگر چند سیاروں اور اُن کے چاند پر کسی حد تک اس سے ملتا جلتا ماحول پایا جاتا
ہے۔ وہاں پر ان کا عمل دخل متوقع ہے۔ مصنف کی زیر طبع کتاب ”زمین پر قبل از تاریخ
آتشیں مخلوق کی بستیاں“ میں اس پر مفصل بحث کی گئی ہے۔
ہماری کہکشاں کی جس سمت و مقام پر ہمارا سورج و زمین پائے جاتے ہیں وہاں ستاروں کی
تعداد نسبتاً کم ہے۔ 4 مکعب نوری سال تک کے فاصلے پر صرف ایک ہی ستارہ یعنی ہمارا
سورج پایا جاتا ہے۔ اس سے کچھ آگے کہکشاں کے اندرونی حلقے کی طرف بڑھیں تو اتنے ہی
رقبے میں سینکڑوں ستارے پائے جاتے ہیں۔ مزید آگے جانے سے ستاروں کی یہ تعداد اسی
نسبت سے بڑھتی جاتی ہے۔
تصور
کریں کہ ایک ایسی زمین جس پر سینکڑوں سورج صبح و شام طلوع رہتے ہوں وہاں درجہ
حرارت کتنا زیادہ ہو سکتا ہے؟ رات کا تصور ہی محال ہو گا۔ وہاں پر مہلک شعاعوں اور
اسی قسم کے ان گنت برقی و ایٹمی ذرات و لہروں کا طوفان برپا رہتا ہو گا۔ ایسی جگہ
صرف پلازمہ سے تخلیق رجلک شریر آتشیں مخلوق و شیاطین کے لئے ہی مناسب ہو سکتی ہے۔
وہاں پر انہیں اپنی جسمانی خوراک اور زندگی کے دیگر لوازمات آسانی سے میسر آ سکتے
ہیں۔ اس لئے ان کی آبادیاں زیادہ تر انہیں حصوں میں متوقع ہو سکتی ہیں۔
یہ مخلوقات کسی خلائی ٹیکنالوجی کے علم یا استعمال سے نابلد ہیں۔ ان کی زندگی اور
نقل و حرکت کا انحصار خود ان کی پلازمک جسمانی ساخت کی وجہ سے ہے۔ جیسے پرندہ ہوا
میں یا مچھلی پانی میں بغیر کسی مشین یا واسطے کے آزادانہ گھوم پھر لیتے ہیں۔
کائناتی توانائی سے تخلیق یہ شیاطین اور ان کے بعض نیک ملائکہ صفت افراد لمحہ بھر
میں لامحدود فاصلے طے کر لیتے ہیں۔ روشنی کی مقررہ رفتار جیسے ہمارے قوانین ان کی
ہائپر کائنات میں لاگو نظر نہیں آتے۔ جیسے:
”اور
ہم (جنات) نے آسمان کو چُھوا (گھوم کے دیکھا)“۔ (الجن 8)
آسمان کی گہرائیوں کو مختصر وقت میں چھان لینے کی طاقت رکھنے والی یہ مخلوق، جنات
روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر لیتے ہیں۔ ہائپر اسپیس کے قوانین بے شک ہم سے مختلف
ہیں۔ لیکن ہائپر اسپیس کی تعریف کیا ہے؟
ہائپر سپیس :(Hyper
Space)
ہماری
اس تین سمتی کائنات میں توانائی لہروں کے جن طبقات تک سائنس و ٹیکنالوجی نے رسائی
حاصل کر لی ہے ان کو مندرجہ ذیل جدول میں ظاہر کیا گیا ہے۔
ہماری
آنکھیں اس درجہ بندی کے ایک نہایت ہی معمولی سے حصے میں کام کرتی ہے۔ یہی حال
ہمارے کانوں یا دوسرے حواس کا ہے۔ اس جدول کی شعاؤں کا کچھ حصہ ہمارے سائنسی آلات
کی گرفت میں ہے۔ جسے ہم نے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سو سال میں دریافت کیا ہے۔ اس جدول
سے ظاہر ہوتا ہے کہ توانائی و شعاؤں کے دیگر کئی درجے یا مقامات ابھی تک ہماری
گرفت سے باہر ہیں۔ تازہ ترین انکشاف کے مطابق ہماری کائنات 73 فیصد ”سیاہ توانائی،
اور 23 فیصد سیاہ مادے پر مشتمل ہے۔ ان کی ماہیت و تفصیل جاننے کی کوشش کی جا رہی
ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں نظر آنے والی یہ کائنات صرف 4 فیصد ہے۔ باقی 96 فیصد کائناتی
حصے کے متعلق ہمارا علم صفر ہے۔ اس معمولی 4 فیصد حصے کی گہرائیوں میں دور، پرے
کیا ہو رہا ہے؟ اس کا بھی ہمیں کوئی علم نہیں۔ مثلاً سورج کے بعد ہمارے قریب ترین
دوسرا ستارہ ہم سے لگ بھگ پانچ نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔ یعنی اس کی روشنی ہم
تک پہنچنے میں پانچ سال کا وقت لیتی ہے۔ آج اگر وہ ستارہ دھماکے سے پھٹ جائے تو
ہمیں پانچ سال بعد اس کی خبر ہو گی۔ اسی طرح مزید آگے بڑھنے سے وقت کے یہ وقفے بھی
بڑھتے ہوئے چودہ ارب نوری سالوں تک چلے جاتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر شاید یہ سارا
کائناتی نظام ہی بھک سے اُڑ چکا ہو۔ یہ خبر یعنی ایسا واقعہ یہاں کسی لمحے برپا ہو
سکتا ہے۔ کیونکہ ہم بھی اسی کائنات کا حصہ ہیں۔
آپ اس وقت بڑے سکون سے مطالعہ میں مصروف ہیں۔ لیکن آپ کے چاروں طرف ہوا و فضاءمیں
ان گنت قسم کی توانائی، لہروں و شعاعوں کا ایک پوشیدہ سمندر جھل تھل کر رہا ہے۔
اپنے موبائل کو استعمال کریں تو وہ ان شعاعوں کے سمندر سے اپنے مطلب کی لہروں کو
پکڑ لے گا۔ ٹی وی یا ریڈیو کو کھولیں تو وہ مخصوص لہریں استعمال کر لیں گے جو ان
آلات کے لئے کارآمد ہیں۔ مائیکرو ویوز پر دودھ گرم کرنے کیلئے کچھ نئی قسم کی
لہروں نے ہمارا یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔ توانائی و نور کے اس پھیلے ہوئے سمندر کے
ایک نہایت ہی معمولی حصے کو استعمال کرنے کا طریقہ ہم نے سیکھ لیا ہے۔ لیکن اس کے
دیگر بے شمار طبقے و درجات ممکن ہیں۔ توانائی کے یہ طبقے اس وقت ہمارے علم و عقل
کی دسترس سے باہر ہیں۔ ان حالات کے تحت ہم دیگر غیر مادی مخلوقات کے طبقات کی
تفصیلات کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔ اگر انسانی ترقی کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو
ڈیڑھ دو سو سال میں ہائپر اسپیس کے بعض درجات تک ہماری رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔
کائناتی توانائی کی آتشیں مخلوق میں ابلیس سب سے بڑا ہے۔ اس کی طاقت و اعمال کا
سلسلہ سارے انسانوں تک وسیع ہے۔ و ہ ہمارے ارادہ و خیال کی قوتوں میں دخل اندازی
کر کے ہمیں غلط سمتوں اور مواقع کی ترغیبات دیتا اور عمل پر اکساتا رہتا ہے۔
”اور بہکا دے اپنی آواز سے ان میں سے جس پر تیری ہمت ہے“۔ (بنی اسرائیل64)
ابلیس
و گروہ ابلیس صرف اپنی ”آواز“ یعنی کسی غیر معمولی براڈ کاسٹنگ طرز کے سسٹم سے ہر
انسان کی دماغی لہروں و سوچ کے ذریعے منفی رحجانات کو فروغ دیتا ہے۔ مجسم شکل میں
جسمانی طور پر ہم سے زبردستی کرنے یا طاقت و تشدد کے استعمال کی اس میں استطاعت
نہیں ہے۔ شاید اسے اس طریقہ کار کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
لیکن کیا اس آتشیں مخلوق میں دیگر لوازمات زندگی کھانا، پینا، سونا،
جاگنا، گھریلو و معاشرتی زندگی یا موت و حیات کا سلسلہ بھی ہے؟
غالباً یہ سارے معاملات موجود ہیں۔ لیکن ہماری طرز کے نہیں ہو سکتے۔ شاید یہ لوگ
خلاءمیں ستاروں کی ضیاءسے اپنی قوت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے
بعض گروہوں کی بستیاں مخصوص ستاروں کے بیرونی حلقے یا خول اور ہمارے نظام شمسی کے
دیگر سیاروں میں پائی جاتی ہوں۔ اگر زمین کی مٹی سے تخلیق آدم و بنی آدم کا وجود
زمین پر ممکن ہے تو پلازمک آتشیں مخلوق کا وجود پلازمے کے ماحول میں ہونے سے کیا
امر مانع ہو سکتا ہے؟ بے شک یہ ہمارے لئے تعجب خیز ہونا قابل تصور ہے۔
انکار سجدہ کے موقع پر ابلیس نے قیامت تک کے لئے زندگی کی مہلت مانگی تھی۔ یہی
مہلت اس کی طبعی زندگی کی ضمانت تھی۔ اس کی دیگر انواع و اقسام میں موت و حیات کا
نظام ثابت ہوتا ہے۔ جیسے:
”اور
ان (انسانوں) کو بھی یہ گمان تھا جیساکہ تمہیں (جنوں) کو گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ
ہر گز کسی کو (بعد از موت) نہ اٹھائے گا“۔ (الجن: 7)
جسمانی
وجود کی مالک رجلک نوع شیاطین میں موت و حیات ایک قدرتی امر بن جاتا ہے۔ یہ گروپ
کسی نہ کسی زمین سے وابستہ ہو کر زندگی گزارتا ہے۔ زمینی نظام سے منسلک ہونے پر
وہاں کے قدرتی حوادث، زمینی تغیرات و عوامل کے جملہ اثرات ان پر پڑتے ہیں۔ جس سے
زندگی و موت کا نظام لاگو ہو جاتا ہے۔ جنات کی ان اقسام میں جنسی رغبت کا حوالہ
بھی ملتا ہے۔ جیسے:
”ان (حوروں) کو پہلے کسی انسان و جن نے ہاتھ نہیں لگایا۔ (الرحمٰن :74)
ابن
آدم کی طرح اس پلازمک مخلوق کو بھی ارادہ و خیال سے اپنے اعمال کی آزادی ہے۔ اس
لئے ان میں مختلف مذاہب و عقیدے موجود ہیں۔ جیسے:
”اور یہ
کہ بیشک ہم میں کچھ نیکوکار ہیں اور کچھ دوسری طرح کے ہم کئی راہوں میں پڑے
(بھٹکے) ہوئے ہیں۔“ (الجن: 11)
آتشیں مخلوق میں سے بعض کا نبی پاک سے قرآن و ہدایت کی تعلیم حاصل کرنا ثابت ہے۔
ان میں مسلمان و مومنین بھی موجود ہیں۔
لیکن ان
کے کفار طبقے میں کیا رسم و رواج یا رسومات ہیں؟ ان کا دین کیسا ہے؟ کیا ان میں بت
پرستی وتثلیث یا اس طرح کے دیگر عقائد بھی موجود ہیں؟ اس پر کہیں کوئی تفصیل نہیں
ملتی۔ مصنف کی زیر طبع کتاب ”زمین پر آتشیں مخلوق کی قبل از تاریخ بستیاں“ میں بڑی
عمدہ بحث کی گئی ہے۔
ابلیسی
نوع کے غیر جسمانی تخلیقی گروپ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی
وحدانیت پر یقین رکھتے اور انتہائی عبادت گزار بھی تھے۔ خالق کائنات کی بزرگی اور
کبریائی کا مشاہدہ بھی کرتے تھے لیکن انکار سجدہ کے موقع پر بغاوت پر اتر آئے اور
ہمیشہ کے لئے ملعون قرار دئےے گئے۔ بعض ممالک کے ادبی لٹریچر میں انہیں باغی
فرشتوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
آسمانِ دُنیا میں فرشتے:
”آسمانی
نور“ کے جلیل القدر ملائکہ اور دیگر ان گنت گروہ ملائکہ کے بعد ”کائناتی توانائی“
کے مافوق الفطرت آتشیں گروہ کے ملائکہ سے اگلے قدم یا درجے میں ذی شعور خلائی
مخلوقات و انسان بھی مافوق الفطرت طاقتور و کارکردگی کے ملائکہ درجات تک جاسکتے ہیں۔
جیسے اس باب کے شروع میں درج شدہ آیات کریمہ میں حوالہ موجود ہے۔
انسان
کو ملائکہ میں بدل دینا زمین پر ملائکہ کے آباد ہونے اور ان کی راہنمائی کے لئے ملائکہ
کو ہی (وحی دے کر) آسمان سے اُتارنے کی اِن قرآنی آیات کریمہ میں گہرے معانی پوشیدہ
ہیں۔ آئیں ان پر مزید غور و خوض کرتے ہیں۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات کریمہ اُن ”آسمانی نور“ کے جلیل القدر ملائکہ اور
ان کے گروہ پر منطبق نہیں ہوتیں۔ انہیں کسی ٹھوس جگہ، زمین وغیرہ پر آباد ہونے کی
ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں ہدایت یا راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ وہ سراپا
عبادت ہیں۔ ان میں گمراہی کا عنصر پایا ہی نہیں جاتا۔ وہ تو کائنات میں اللہ
تعالیٰ کے احکامات پہنچانے امر الہی کو لاگو کرنے اور دیگر معاملات کو چلانے والے
ہیں پھر ان آیات کریمہ سے کیا مفہوم لیا جائے۔
یوں
سمجھ آتی ہے جیسے فرشتہ کی بنیادی تعریف و استعاری زبان میں وہ مخلوقات بھی شامل
ہےں جو کائنات کے نادیدہ طبقات و حصوں تک اپنی قوت، پوزیشن اور عمل دخل کی ایک
اعلیٰ منزل تک رسائی حاصل کرکے مافوق الفطرت طاقتوں کی مالک بن جاتی ہیں۔ توانائی،
مادہ، وقت، ہائپر اسپیس میں آمدورفت کے پیچیدہ معاملات کس حد تک ان کے کنٹرول میں
آجاتے ہیں۔ ان حالات میں انہیں آسمانی راہنمائی کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ جس کا سورة
بنی اسرائیل کی اس مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اشارہ موجود ہے۔
کائنات میں اس درجے کے گہرے کنٹرول و تصرف کے موقع پر خدائے واحد پر مکمل یقین اور
ایک جامع ضابطہ اخلاق کی اشد ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ ورنہ یہ نیلگوں آسمان اور
خلاءفساد و توڑ پھوڑ سے ناقابل رہائش ہوسکتی ہے۔ انہی قرآنی اشارات کو مدنظر رکھتے
ہوئے ہمارا یہ نظریہ ہے کہ دابہ کی بعض ذی شعور خلائی مخلوقات نے یہ مقام حاصل کرلیا
ہے۔ اس موضوع کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس پر تفصیلی گفتگو اور مزید تجزیئے کی
ضرورت ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات و مشاہدات کے مطابق اس
کائنات کی ابتداءکوئی چودہ ارب سال پہلے ہوئی ہے۔ ہماری زمین کو معرضِ وجود میں
آئے تقریباً پانچ ارب سال کا وقت ہوا ہے۔ پھر یہاں پر پانی ظاہر ہوا۔ جس سے ساری
زندگی کی ابتداءہوئی۔ جیسے:
”ہم
نے ہر جاندار شے پانی سے تھرائی (بنائی)“۔ (الانبیاء: 30)
قرن
ہا قرن سالوں تک زمین پر استعمال ہونے والے ضروری لوازم تیار ہوئے۔ سب سے اخیر میں
انسان اس منظر پر آیا۔ ہم نے چند ہی صدیوں کے دوران آسمان میں داخل ہونے کا سامان
تیار کرلیا۔ سائنسی مشینیں و آلات مسلسل دوسری زمینوں و خلائی سیاروں کی چھان بین
میں مصروف ہیں۔ خلائی سیارچے نظام شمسی سے باہر آگے نکل کے آسمان کی گہرائیوں میں
دوسرے ستاروں کی طرف محو پرواز ہیں۔
سائنسی
انکشافات سے پتہ چلا کہ ہماری اس زمین کے وجود میں آنے سے پہلے ہماری اپنی کہکشاں،
آسمان کے دیگر حصوں میں دیگر زمینی طرز کے نظام ہم سے کئی ارب سال پہلے موجود اور
سرگرم عمل تھے۔ علم کاسمولوجی کے مطابق ہماری کہکشاں کم و بیش ڈیڑھ کھرب سورج یعنی
ستاروں پر مشتمل ہے۔ جن میں ہمارا سورج ایک ننھے منے چراغ کی طرح ٹمٹاتا ہوا
کہکشاں کی نسبتاً ایک غیرآباد کالونی کے کنارے پر واقع ہے (دیکھئے تصویر)۔ ہماری
اِس کہکشاں میں تقریباً ایک لاکھ ذی شعور خلائی مخلوقات کی مختلف انواع اقسام کا
حساب لگایا گیا ہے۔ اِن مخلوقات میں سے بعض شاید ہماری طرز کی سائنس و ٹیکنالوجی
پر عبور رکھتی ہوں۔ ہمارے پڑوس میں دوسری بڑی کہکشاں ”اینڈرومیڈا“ ہم سے پچیس لاکھ
نوری سالوں کے فاصلے پر واقع ہے۔ جس میں دو کھرب سورج (ستاروں) کا تخمینہ لگایا
گیا ہے۔ وہاں پر کتنی ذی شعور انسان نما مخلوقات ہو سکتی ہیں؟
ہماری
کہکشاں کے اردگرد تقریباً پچاس دیگر ایسی کہکشائیں پائی جاتی ہیں۔ انہیں ”لوکل
گروپ“ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس لوکل گروپ کے پڑوس میں تقریباً تین ہزار ایسی کہکشاؤں
کا ایک اور گروپ موجود ہے۔ پڑوس درپڑوس میں کہکشاؤں کے یہ گروہ یا جھرمٹ پھیلتے پھیلتے
چودہ ارب نوری سالوں کی بے پناہ وسعتوں تک چلے جاتے ہیں۔ ایک تجزیے کے مطابق
دوکھرب کہکشاؤں کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ اِن کی فوٹوگرافی تک ہو چکی ہے (دیکھئے تصویر)۔
ان سب
میں کتنے سورج (ستارے)۔ ان کی ذیلی زمینیں، پھر ان پر کتنی انواع اقسام کی مخلوقات
اور ذہین مخلوقات پائی جاتی ہیں؟ یہ انسانی ذہن کو ماﺅف کردینے
والا ایک لاینحل گورکھ دھندا بن جاتا ہے.
ہم سے
کئی ارب سال پہلے وجود میں آئے ان لاتعداد سلسلہ نظام میں بعض دابہ یعنی خلائی
مخلوقات نے زمانے کے ان وقفوں میں طاقت و کارکردگی اور ترقی کا وہ اعلیٰ ترین معیار
و رتبہ لامحالہ حاصل کرلیا ہے جس کی نوید ہمیں اب دی گئی
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات
کے عوامل میں ان ذہین مخلوقات کا عمل دخل نہایت ترقی یافتہ اور بالکل انوکھی وضع
کا ہو سکتا ہے۔ مثلاً مادہ سے توانائی اور پھر مادہ میں تبدیلی (Transfigure)، ہائپراسپیس کے بعض مقامات تک رسائی، وقت و
نفس کے بعض معاملات پر گرفت، ارادہ و خیال کی توانائی (سحر) کا استعمال، روشنی سے
ماوراءرفتار، کائنات کی سیاہ توانائی و نادیدہ لہروں کا استعمال، نامعلوم شعاعوں
کی ٹیکنالوجی اور آسمان و اسپیس میں سرنگ (ٹلنگ) وغیرہ وغیرہ۔
حیرت انگیز
حد تک ترقی یافتہ ایسی مخلوقات بلاشبہ فرشتوں کی طرح مافوق الفطرت طاقتوں کی مالک
بن جاتی ہیں۔ باب چہارم میں بیان کردہ تیسری سائنسی خلائی تہذیب یا ملائکہ نما
دابہ خلائی تہذیبیں آسمانِ دنیا کے مختلف حصوں میں ممکن ہو سکتی ہیں۔ ان مخلوقات
کا رہن سہن روزمرہ کی زندگی، سوشل معاملات، ان کی بستیاں، کوچہ و بازار، چہل پہل
اور کارکردگی کا معیار دیکھ کے ہم مبہوت رہ جائے۔ ان کی ترقی کی منازل و درجات
ہمارے خواب و خیال سے باہر کی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ان کی سائنس و ٹیکنالوجی ہمارے
لیے شاید ایک جادونگری کی طرح ہو۔
اگر
اللہ تعالیٰ کی مطیع و فرمانبردار کوئی ایسی ذی شعور خلائی مخلوق یہ مقام حاصل
کرلے تو وہ فرشتوں کا مقام و درجہ پاکر باقی انواع کے لیے قضا و قدر کے مانیٹرنگ
آسمانی نظام کا ایک حصہ بن سکتی ہے۔
ان
آیاتِ کریمہ میں شاید انہی کا ذکر آیا ہے۔ جیسے:
”تمہارا
رب تمہاری مدد کو بھیجے تین ہزار فرشتے اترنے والے“۔ (آلِ عمران: 124)
”تمہارا
رب مدد کو بھیجے پانچ ہزار فرشتے مخصوص نوعیت کے سواری پر (مخصوص نشاندار ہوں
گے)“۔ (آلِ عمران: 125)
”میں
تمہاری مدد کرنے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے“۔ (الانفال: 9)
”تمہارے
رب نے فرشتوں کو وحی بھیجی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت قدم رکھو،
تم کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاﺅ“۔ (الانفال:
12)
ان آیات
کریمہ پر گہری سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔
”آسمانی
نور“ کے وہ جلیل القدر ملائکہ اور اِن کے معاون گروہ کے ارکان جن کا اس مضمون کے شروع
میں ذکر کیا گیا ہے وہ ساری کائنات میں تصرف رکھتے ہیں۔ انہیں کسی وحی کی ضرورت
نہیں ہے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادے کو سمجھتے ہیں یوں خود ہی حاملین وحی ہیں۔
اسی طرح عزرائیل علیہ السلام ایک لمحہ میں لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند
سلا سکتے ہیں۔ میدانِ بدر یا احزاب کے چند سو کفار کے لیے انہیں ہزاروں کی تعداد
میں ”سواریوں“ پر اُترنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟۔ لازمی بات ہے کہ یہ آیات
کریمہ کسی نئی سمت اشارہ کررہی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہاں پر ملائکہ درجے کی اُن ذی
شعور دابہ خلائی مخلوق کا حوالہ دیا گیا ہو۔ ”منزلین و مسومین“ کے خصوصی الفاظ
ہمیں مزید دلیل مہیا کرتے ہیں۔ ایسے پتہ چلتا ہے کہ آسمانِ دُنیا کے کئی معاملات
مقامی طور پر ہی حل کرلیے جاتے ہیں۔ یہاں کی ملائکہ نما و صفات والی دابہ خلائی
مخلوق کو کائنات کے ڈی کوڈ کرنے کی یہ استطاعت عطا ہوئی ہے۔ جس کا ذکر آدمؑ و
خلیفة الارض کے قصے میں فرشتوں کو بطور جواب دیا گیا تھا۔
جدید
سائنس میں تحقیقات کا دائرہ نہایت تیزی سے وسیع ہوتا جارہا ہے۔ انسانی جینوم اور
ہمارے بدن کے اعمال و خواص کو کنٹرول کرنے والے متفرق جینز پہچان لیے گئے ہیں۔ اب
اگلے مرحلے میں انسان کی بنیادی عادات اور خدوخال نئے سرے سے ترتیب دے کر ایک ”جدید
سپرخلائی انسان“ کو ڈھالنے کے متفرق منصوبوں پر تحقیقات جاری ہے۔ ایک ایسا انسان
جس میں منفی خیالات و رجحان کے جینز بالکل نہ پائیں جائیں۔ یہی وہ لمحہ ہے انسان
سے فرشتے نکالنے یا بدل دینے کی وعید سنائی گئی ہے۔
ان فرشتہ صفت خلائی مخلوقات کی شکل و صورت، ماہیت، اِن کی تعداد و اقسام۔
اِن
کا نظام زندگی، اِن کا جسم یا زندگی کا فارمولا اِن کے علم و ذہن کی استعداد وغیرہ
سوالات پر ہم کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔ وہ کہکشاں کے کن حصوں میں آباد ہیں؟
اِن کے حلقہ شمسی میں کون سے میٹریل و ذرائع
میسر ہیں؟ وہ کیسی سائنس و ٹیکنالوجی سے کام لیتے ہیں؟ کون سی توانائی، لہروں یا
شعاعوں پر اِن کی گرفت ہے؟
ایسے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ بنیادی طور پر یہ باتیں علم الٰہی کے اِن بے کراں سمندروں کی ہیں جن کے
چند قطروں پر نہایت ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بحث کی ہمت کی گئی ہے۔
”اور
اگر زمین پر جتنے درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر اُن کی سیاہی، سات سمندر اور
بھی تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں۔“ (لقمٰن:27)
ایک
عام اندازے میں یہ معلومات کمپیوٹر کی زبان میں 20(10) بٹس ہوسکتی ہیں۔ واضح ہو کہ
نظرآنے والی اس کائنات میں 80(10) (ایک کے آگے اسی صفر کا ہندسہ) ایٹم کا سائنسی
تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی موضوع کی نسبت سے مزید قرآنی واقعات بھی کافی معنی خیز ہیں۔
آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب قوم لوط میں ایسی ہی فرشتہ درجات کی مافوق
الفطرت طاقتیں موجود تھیں۔
سدوم و عمورہ:
تقریباً
چار ہزار سال پہلے اُردن کے جنوب مشرق میں واقع ان بستیوں کی تباہی میں قریبی پہاڑ
سے نکلنے والے جلے ہوئے پتھروں، میٹیریل، سخت گرم سہاگہ نما گیسوں کا حصہ تھا۔
عموماً ایسی قدرتی آفات زلزلے، کڑک اور لاوا کے اُبل آنے سے تباہی پھیلاتی ہیں۔ دیگر
قدیم قوموں پر عذاب آسمانی کے ایسے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ لیکن ان بستیوں کی تباہی
کی تفصیلات مختلف مواقع پر اشارات کے ساتھ بار بار بیان ہوئیں۔ جو نہایت پراسرار
اور قدرتی حوادث کی بجائے ایک خصوصی وضع کردہ پروگرام کا حصہ معلوم ہوتیں ہیں جیسے:
”(حضرت
لوط علیہ السلام کو بھیجے ہووؤں نے کہا) تو گھر والوں کو لے کر نکل (یہاں سے) رات کے
ایک حصے میں اور تم میں کوئی پیچھے مڑ کر نہ دےکھے۔ سوائے تمہاری عورت کے (جو مڑ کر
دیکھے گی کیونکہ) اسے بھی وہی ملے گا جو انہیں (ان بستی والوں کو) اور اس کا وقت صبح
ہے۔ کیا صبح قریب نہیں پھر جب ہمارا حکم آیا تو بستی کو اوپر نیچی کر دیا اور
برسائے ان پر پتھر سجیل کے۔ تہہ در تہہ خصوصی تیار و نشان شدہ تیرے رب کی طرف سے۔“
(الھود 81:83)
”تو
اپنے گھر والوں کو لے کر جب رات تھوڑی ہو (رہ جائے) تو نکل اور آپ ان کے پیچھے چلیں
اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑکر نہ دیکھے اور جاؤ اس جگہ جو تمہیں بتائی گئی ہے“۔ (الحجر
:65)
”تو دن
نکلتے ہی انہیں چنگاڑ (کڑک) نے آلیا اور اس بستی کو الٹ پلٹ کر دےا اور ان پر سجیل
کے پتھر برسائے“۔ (الحجر- 73-74)
”اس بستی
پر جس پر (ایک نہایت) برا برساؤ برسا تھا“۔ (الفرقان: 40)
”اور ان
پر ایک برساؤ ہوا تو کیا ہی برا برساؤ تھا ان کے لئے“۔ (الشعراء173)
قرآن مجید میں دیگر کئی مقامات پر بھی اس واقعہ کے حوالے موجود ہیں۔ بین
السطور میں چند قابل غور نکات سامنے آتے ہیں۔ مثلاً
1۔ پیغمبر
خدا اپنے آدمیوں کے ساتھ مقرر شدہ پناہ گاہ کی طرف جا رہے تھے ابھی عذاب شروع نہیں
ہوا تھا۔ اس وقت پیچھے نہ مُڑکر دیکھنے کی ہدایت غیر معمولی تھی۔ پھر بھی ان کی بیوی
نے مُڑکر دیکھ لیا تو:
”مگر
رہ گئی ایک بڑھیا رہ جانے والوں میں“۔ (الشعرائ: (171)
دیگر
الہامی کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ اس کی ہیت بدل کر ”وہ نمک کا ایک مجسمہ بن گئی“۔
تباہی کا وہ مقام بحر مردار، پوٹاش، کیلشیم، سوڈیم، کیمیکل و نمکیات کا ایک
بدبودار پانی ہے۔ جس میں کوئی آبی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔ اردن میں اب اس پانی
سے مختلف کیمیکلز علیحدہ کئے جاتے ہیں۔
2۔ رات کے آخری حصے۔ صبح کاذب سے اشراق تک، تقریباً
چار پانچ گھنٹوں میں دونوں بستیوں کی ہولناک تباہی کا یہ عمل مکمل ہوگیا۔ عذاب کے
دیگر ایسے واقعات اور متفرق تاریخی حادثات کے پیش نظر یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔
3۔ آیات
کریمہ میں ”برا مہینہ“ ، ”نشان زدہ“، ”تیار کردہ“ اور ”تہہ در تہہ“ طرح کے
استعارات و خصوصی الفاظ غیر معمولی اہمیت کے حالات و طریقے کار کی طرف اشارہ کرتے
ہیں۔
4۔ گہری غور و فکر و سوچ و بچار کرنے والوں (متوسمین) کے لئے اس میں کچھ مخصوص
نشانیاں (آیات) ہیں (الحجر: 75)
یہ الفاظ اس واقعہ کی خصوصی اہمیت پر مزید زور
ڈالتے ہیں۔
ان
آسمانی تفصیلات تاریخی روایات اور ان بدنصیب بستیوں کی بقایاجات کا مختلف سائنسی
علوم کی روشنی میں تجزیہ کرنے سے جو صورت حال واضح ہوتی ہے۔ اس کی رو سے یہ واقعہ
ملائکہ درجے کی ان آسمانی ہستیوں نے بحکم الہی انجام دیا جن کا اوپر ذکر کیا گیا
ہے۔ سارے واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح بنتی ہے:
کوئی نامعلوم خلائی ذرائع رات کے وقت ان بستیوں کی مخصوص سمت میں استعمال ہوئے جن
سے ایسی نادیدہ لہروں کا اخراج ہوا جو مادے اور زندہ اجسام کی ہیت کو فوراً تبدیل
کر دیتی تھیں۔ صبح کاذب سے ہی وقفے وقفے سے ان ریز کے ”تہہ در تہہ“ یا Burst بوچھاڑ پڑنی شروع ہوگئی تھی۔ غالباً یہ کہ
وہ دبیز شعاعیں تھیں جو صرف انسانی بصارت کے طول بلد میں پائی جاتی ہیں۔ شاید اسی
وجہ سے پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کی خصوصی تلقین کی گئی تھی۔ چونکہ اسی وقت سے ان
شعاعوں کے ”برسٹ“ یا وقفے وقفے کی بوچھاڑ جاری تھی۔ مزید یہ کہ ”خصوصی تیار“، ”نشان
زدہ“، ”تہہ در تہہ“ کے مخصوص بیانات بھی ہوسکتا ہے اسی صورت حال کو واضح کررہے
ہوں۔
ساتھ
ہی نادیدہ ذرائع سے قریبی پہاڑ کی مناسب پوزیشن پر زیرزمین پلیٹ میں باریک سی پھوٹ
ڈالی گئی۔ یہ سارے ابتدائی انتظامات اور پروگرام کا پہلا مرحلہ صبح کاذب سے ہی
شروع تھا۔ چونکہ پہلے ضروری مرحلے کا سارا کام تقریباً مکمل تھا۔ اسی لئے پیغمبر
خدا کو ہدایات دیتے وقت کہا گیا کہ اب یہ بات طے ہو چکی ہے جو ٹلتی نہیں۔ واقعات
کا یہ تسلسل مزید قابل فہم بنانے کے لئے ہم اس مشہور زمانہ پاکستانی ایٹمی دھماکے
کے واقعات کو دہراتے ہیں۔ جب چاغی پہاڑ کی گہرائی میں دھماکے کے سارے انتظامات و
کنکشن فٹ تھے۔ سرنگ کو کنکریٹ سے بھر دیا گیا تھا۔ اس وقت سارے انتظامات کو دوبارہ
سےمٹانا یا دھماکے کو ملتوی یا منسوخ کرنا کسی کے بس میں بھی نہ تھا۔ ہوسکتا ہے اس
سے ملتی جلتی صورت حال ان بستیوں کے عذاب میں بھی پےدا ہوچکی تھی۔ اس لئے حاملین
عذاب نے واضح کردیا کہ بات مقرر ہوچکی ہے یہ اب ٹلتی نہیں۔
بہرحال
پروگرام کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام بتائی ہوئی اپنی جائے پناہ میں پہنچ گئے۔
اب اس زیرزمین پلیٹ سے گرم گیس اور بھورے سہاگہ نما مواد نے ایک خوفناک کڑک (الصحیة)
کے ساتھ باہر آنا شروع کیا۔ عذاب کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کڑک کی اس آواز
کی رفتار ساؤنڈ بےرئیر (Sound Barer)
سے زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے ان بستیوں کی کثیر آبادی اپنی جگہ پر ہی ہلاک ہوگئی۔
ان گرم گیسوں کی سمت اور بہاؤکو کنٹرول سے ان بستیوں تک محدود رکھا گیا۔ ساتھ ہی جلے
ہوئے سیاہ پتھر اولوں کی طرح برستے رہے۔ جن سے سارے راستے، گلیاں، سڑکیں وغیرہ
فوراً بندہوگئیں۔ جو آدمی جہاں تھا وہی پر زمین نے اسے جکڑ لیا۔ اِدھر اُدھر
بھاگنے یا بچ نکلنے کے سارے راستے مسدود ہوگئے۔ اسی وقت تقریباً چھ سو ڈگری، تک
گرم باریک بھورے رنگ کا پوڈر نما سہاگے و گیس کا ایک بھبکہ لگ بھگ دو سو میل فی
گھنٹہ کی تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا ساری بستیوں میں گھس گیا۔
کوئی
ذی روح ایک قدم بھی نہ بھاگ سکا۔ بچاؤ کی پل بھر بھی مہلت نہ ملی (استغفار)۔
انسان،
مویشی، جانور، چرند پرند ہر شے فوراً ہی جل بُھن کر اپنی جگہ روسٹ ہو گئی۔ نامعلوم
ریز یا شعاعوں کے برسٹ (بوچھاڑ) بھی جاری تھے۔ جس نے پورے علاقہ کو کیلشیم، سوڈیم،
فاسفیٹ، پوٹاش طرز کے کیمیکل میں بدل دیا۔ اس وقفے کے دوران ان بستیوں کی زمین جگہ
جگہ سے پھٹ گئی۔ اس میں گہرے شگاف اور گڑھے پڑ گئے۔ ساری بستیاں لینڈ سلائڈ کی طرح
الٹ پلٹ کے زیرزمین دفن ہو گئی۔ زیرزمین نمکیات بھرا پانی بھی ابل کر باہر آ گیا۔
”ہائے
افسوس ہے ان بندوں پر“۔ (یٰسین: 30)
اس سارے پروگرام کو نہایت رازداری اور کنٹرول سے
”مصبین سے مشرقین“ تک کے دوران تقریباً پانچ گھنٹے میں مکمل کر لیا گیا۔ زمین کا
یہ سرسبز شاداب اور زرخیز خطہ، جو ایک وقت علاقے کے دوسرے شہروں و قصبوں کو اناج و
غلہ مہیا کرتا تھا، اپنی نہایت پست و مکروہ بداعمالیوں کے سبب کیمیکل بھرے بدبودار
پانی کی شکل میں بطور نشان عبرت باقی رہ گیا۔ تاریخی روایات ہیں کہ جب وہاں سے گیس
و دھوئیں کے بادل بلند ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام فاصلے پر یروشلم کے علاقے
سے عذاب کے اس واقعے کو دیکھ رہے تھے۔
پوٹاش،
سوڈیم، کیلشیم کے یہ متفرق کیمیکلز جراثیم کش خصوصیات کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ ان
بستیوں کے قبیح شیطانی اعمال کے باعث وہاں پر غالباً ساری مہلک جنسی امراض، ایڈز
اور باقی ایسی بیماریاں بھی موجود تھیں۔ جس کی وجہ سے تقریباً چار ہزار کے اس لمبے
زمانے میں زمین پر نسل انسانی کا بڑا حصہ اب تک ختم ہو چکا ہوتا۔ اس لئے پورے
علاقہ کو صاف Disinfectify کرنا بھی ضروری تھا۔ شاید یہ کیمیکلز اس لئے
استعمال کئے گئے ہوں جن کا ہمیں اب سراغ ملتا ہے۔
قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ یہ اپنی تفصیلات، مختلف پیرائے میں متفرق حوالوں سے خود
بیان کرتا ہے۔ جیسے دیگر ایک قوم کے عذاب میں یہ بیان آیا ہے:
”اور
ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر کوئی لشکر آسمان سے نہیں اتارا اور نہ ہمیں کوئی
لشکر اتارنے کی ضرورت تھی۔ وہ تو بس ایک چنگھاڑ (زوردار کڑک) تھی جس سے وہ سب بُجھ
(ہلاک) کے رہ گئے“۔ (یٰسین: (28-29)
اس آیت کریمہ میں عذاب و سزا کی نسبت سے ہمیں
سنت اللہ بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ بالکل واضح الفاظ میں عذاب کے وقوع پذیر ہونے کی
دو صورتیں بتائی گئیں:
-1 عذاب بذریعہ لشکر آسمانی
-2 عذاب بذریعہ زمینی حادثات
سورة
آل عمران و سورة الانفال میں اسی طرح کے کچھ دیگر لشکروں کی بابت وضاحت آئی ہے۔
اسی نسبت سے عذاب قوم لوط بھی مسلح لشکر آسمانی کی بمعہ ساز و سامان آمد کو ظاہر
کرتا ہے۔
یہاں
پر استعمال شدہ الفاظ ”خلائی ذرائع“ وغیرہ سے ان کا زمینی رائج الوقت ایسی اشیاءسے
کوئی تعلق نہ سمجھا جائے۔ یہ الفاظ صرف بات کا مفہوم واضح کرنے کے لئے استعمال کئے
گئے ہیں۔ کیونکہ ان نادیدہ و ناقابل تصور آسمانی ذرائع یا اشیاءکو کسی اور طرح سے
بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی اشیاءجو مادہ سے توانائی میں تبدیل ہو کر روشنی سے
ماوراءرفتار سے یہاں لائیں گئیں۔ مشن مکمل ہونے کے بعد دوبارہ اسی عمل سے واپس ہو
گئیں۔ شاید آسمان کی وسعتوں میں نامعلوم زمینوں پر رہتے بستے ملائکہ صفت دابہ کے
لشکر کو قضا و قدر کا یہ مانیٹرنگ سسٹم پورا کرنے کی ڈیوٹی دی گئی تھی۔
اس
قصے میں واقعات کے تسلسل کو ایک اچھوتے انداز میں نئے زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔ اس
لئے ممکن ہے بعض قارئین کو یہ جاری روایتی انداز سے ذرا مختلف معلوم ہو۔ لیکن واضح
ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر شے، ہر وجود کے ذمے ایک مخصوص ڈیوٹی لگائی
گئی ہے۔ اسی نسبت سے اتنا ہی علم و استعداد بھی اسے عطا ہوا۔ مثلاً حضرت میکائیل
علیہ السلام کو رزق و روزی بانٹنے کا اختیار ہے۔ انہیں موت کے معاملات کا علم نہیں
جو حضرت عزرائیل علیہ السلام اور ان کے گروہ ملائکہ انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح حضرت
جبریل علیہ السلام وحی و آسمانی احکامات پہنچانے پر اختیارات و قدرت رکھتے ہیں۔
ایسے
پتہ چلتا ہے کہ اس مادی کائنات کے بعض معاملات یہی فرشتہ نما مافوق الفطرت ہستیاں
ہی سرانجام دیتی ہیں۔ جن کی تفصیل و ماہیت مستقبل میں شاید مزید واضح ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ہی یہ علم اور طاقت دے کر ان کائناتی کاموں پر مامور کیا ہے۔
جیسے:
”(فرشتے) بولے پاک ہے تیری ذات ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا“۔
(البقرہ: 32)
ایک مثال سے یہ بات مزید واضح ہو سکتی ہے۔ فرض
کریں آپ کی جائے پیدائش کراچی ڈیفنس ایریا یا لاہور ماڈل ٹا¶ن ہے۔ آپ نے اپنی ساری
زندگی وہاں ہی گزاری۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک پھر نوکری کے دوران بھی
وہیں رہائش پذیر رہے۔ چالیس پچاس سال کے اس عرصہ میں آپ کو وہاں کے مقامی شب و
روز۔ حالات و واقعات، لوکل گروپ بندی و سیاست، مقامی لوگوں سے رابطہ، دفتری و دیگر
معاملات پر پورا عبور حاصل ہو گیا۔ کیونکہ یہ سب کچھ آپ کی نظروں کے سامنے واقعہ
ہوتا رہا۔ آپ پورے بھروسے سے وہاں کے مقامی مسائل و معاملات پر اپنی رائے کا اظہار
کر سکتے ہیں۔ آپ سے مشاورت بڑی قیمتی ثابت ہو سکتی ہے۔ جبکہ میری جائے پیدائش
کہوٹہ ہے۔ میں بڑی باریک بینی سے کہوٹہ کے معاملات پر اظہار رائے کر سکتا ہوں۔ میں
کراچی ڈیفنس یا لاہور ماڈل ٹاؤن کے حدود اربعے سے بھی واقف نہیں ہوں۔ اب ان حالات
کے تحت اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ مجھے ماڈل ٹاؤن ویلفئر کمیٹی لاہور کا چیئرمین
نامزد کریں تو آپ خود اندازہ کریں کہ میں کیا خاک وہاں کے مسائل سلجھا سکوں گا۔
بلکہ معاملات الٹا بگڑ کر خراب سے خراب تر ہو جائیں گے۔ اس سادہ سی مثال سے ملتی
جلتی مثال انسان کو خلیفة الارض مقرر کرتے وقت پیش آئی۔ فرشتوں (بشمول شیطان) کا
استدلال تھا کہ انسان کی بجائے وہ اس خلافت کے حق دار ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا
جواب تھا کہ زمین و کائنات کے متفرق مادی مسائل یہی مادی انسان ہی سمجھ کے حل کر
سکتا ہے۔ میں نے اس میں یہ علم و استطاعت بھی رکھی ہے۔ تم سب کو میں نے کسی اور
وضع سے تخلیق کیا ہے۔ تمہیں یہاں کے معاملات کا پورا علم نہیں دیا گیا ہے۔
گویا
ماڈل ٹاؤن ویلفئر کمیٹی کے چیئرمین کی ڈیوٹی مقامی پڑھا لکھا آدمی بہتر طریقے سے
ادا کر سکتا ہے۔ زمین پر خلیفة الارض مقامی آدمی۔ انسان۔ ہی بن سکتا ہے۔ مادہ سے
تخلیق اعلیٰ ترقی یافتہ، دابہ مخلوق مادی کائنات کو سمجھ کے ڈی کوڈ کر سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہی سنت کائنات میں جاری ساری نظر آتی ہے۔
مادی کائنات کے بعض مادی معاملات پر ان مادی مخلوقات کو ہی اختیارات ودیعت کر دیئے گئے ہیں۔ یہی ”آدمؑ کو سجدہ کرو“ کا مفہوم اور ہمارا اتھارٹی لیٹر تھا۔ یہ کائنات بمعہ اس کی موجودات ہمارے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ ہم درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے مافوق الفطرت طاقتوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ جیساکہ پچھلے ایک باب میں اس درجہ کی ترقی یافتہ خلائی تہذیبوں کا ذکر ہے۔ جدید علوم کی بے پناہ وسعت نے انسان کو معاملات، واقعات و اشیاءکے دیکھنے پرکھنے کے لئے نئی روشنی عطا کی ہے۔ دن بدن کائنات کے بہت سے راز ظاہر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ سارے انتظامات بھی اسی خالق کائنات کی طرف سے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment