Followers

Wednesday, July 19, 2017

جنّات اور شیاطین کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟


جنّات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟




انسانی کی تاریخ، ادب اور روایات وغیرہ میں جنات، شیاطین، آسیب،دیو، پریوں، سایوں، بدروحوں وغیرہ کے ذکر و اذکار سے بھری پڑی ہیں ۔ دنیابھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں انسانوں کو ہر روز اس قسم کی مخلوقات سے متعلق معاملا ت و حادثات سے پالا پڑتا رہتا ہے، کبھی کوئی گھر آسیب زدہ ہوجاتا ہے تو کسی انسان پرجنات اور شیاطین غالب آجاتے ہیں یا کبھی کسی آدم زاد پر دیو اور پری کا سایہ پڑجاتا ہے ۔ مادہ پرست اور ملحد لوگ فرشتوں اور جنات کے وجود کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیز محسوس نہ ہو اور مشاہد ہ میں نہ آسکے اس کا وجود فرضی اور غیر عقلی ہے۔ حالانکہ عقلی اعتبار سے بھی جنات اور ملائکہ کا وجود ممکن ہے اس لئے کہ کسی چیز کا مشاہد یا محسوس ہونا اس کی عدم کو مستلزم نہیں کرتا۔ بجلی ، روشنی اور مقناطیس کے وجود سے موجودہ مادی دنیا میں کون انکار کر سکتا ہے جن کے وجود کا علم بھی آثار و علامات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ملائکہ اور جنات اگرچہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں لیکن وہ بلاشبہ مستقل مخلوق ہے ۔ کیا یہ باتیں درست ہیں ، کیا نادیدہ مخلوقات کا واقعی کوئی وجود بھی ہے یایہ صرف انسانی ذہن کی اختراعات ہیں، ان کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے، سائنس کیا بتاتی ہے اور ہماری عقل انہیں تسلیم کرتی ہے یا نہیں ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت کم لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے مگر میں پچھلے دو مہینوں سے اس موضوع پر تحقیق کرتا رہا ہوں، اس کے سینکڑوں بزرگوں ، جنات کے عاملوں اور اس قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑنے والے افراد کے ساتھ ملا ہوں، اس موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھی ہیں مگر میرے خیال میں یہ موضوع انتہائی وسیع ہونے کی بنا پر ابھی تک تشنہ اور نامکمل ہے اور دیکھیں کہا ں تک لے جاتا ہے کیوں کہ جنات سے انٹرویوز لینا کا مرحلہ ابھی باقی ہے جس پر میں کام کررہا ہوں مگر سر دست اپنے دوست افسر قریشی اور عزیز منگی کے کہنے پران کے رسالے کے اوراق کو مدِ نظر رکھ کر اپنی معلومات کا نچوڑ آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
پیدا کر نے والے نے کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات کو پانچ مختلف قویٰ ، عقل ، وہم، خیال ، شہوت اور غضب کی ترکیب سے تخلیق کرکے تمام مخلوقات میں ایک تناسب کے ساتھ بانٹ دیا ۔
جن کواجزائے ترکیبی کے حساب یا علمی لحاظ سے چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ۔
۱۔روحانی مخلوق۔ اس مخلوق جو فرشتے ، ملائک ، ارواح، دیوتا، سروش یا ملکوت بھی کہا جاتا ہے جن کی عقلی قوت ، وہم و خیال اور شہوت و غضب پر غالب ہوتی ہے اس لئے یہ ہر قسم کے گناہ اورلغزش کے ساتھ کھانے پینے کی خواہش سے بھی پاک ہوتے ہیں اور اپنی قوت عظیم کی بدولت ہر قسم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
۲۔ دوسری قسم کی مخلوق جنات ہیں جنہیں عقل، شہوت ، غضب، وہم و خیال اس درجہ غالب ہوتی ہے کہ وہ اختیاری عقل و شہوت ، غضب ، قوت اور خیال کی تابع ہوجاتی ہے، اس کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے ۔ اپنے مادہ کی لطافت اور خیال کی قوت سے یہ بھی اپنی مرضی کی صورتیں بدلنے پر قادر ہوتی ہے۔
۳۔ مخلوق کی تیسری قسم جسے انسان کہاجاتا ہے کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کی تمام جذبوں اور قوتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا اور زمین کی وسعتوں پر حاکم مقرر کیا گیا ۔
۴۔ تیسری قسم کی مخلوق کے عقل وہم خیال پر شہوت و غضب غالب ہوتی ہے عقل کم ہوتی ہے اس لئے انہیں حیوان کہا جاتا ہے ۔ جن حیوانات پر شہوت غالب ہے ان کانام بہائم ہے اور جن پر غضب غالب ہے وہ حیوان کہا جاتا ہے۔
ان مخلوقات کی رہائش کا انتظام ۔
فرشتوں یا دیوتاؤں کے رہنے کے لئے آسمان میں انتظام کیا گیا ہے اور ان کا تقرر آسمانوں کے ساتھ تمام عالم پرکیا گیا ہے۔ جنات کو زمین پر آباد کرکے انہیں نباتات، درخت، گھاس ، سونا چاندی ، چرند و پرندکو ان کے اختیار میں دیاگیا۔ جنات کے ارواح و جسم ملائکہ کی روح سے قریب ہیں اس واسطے ممکن ہے وہ عالم ملکوت سے بعض غیب کی باتیں معلوم کر سکنے پر قادر ہوں یا ان کی محفلوں میں شریک ہوتے ہوں۔ انسان کوخلقت وجود پہنایا اس لئے یہ مرکب ہوکر معجون کے طور پر ظاہر ہوا، اس کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اوراسے زمین کی خلافت عطا کی۔ ایک روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر حفاظت کے لئے موکل مقرر کر رکھے ہیں جو نیند اور بیداری کی حالت میں جنات اور حشرات الارض اور دیگر ستانے والی قوتوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اگر یہ فرشتے انسان کی حفاظت کے لئے مامور نہ ہوتے تونادیدہ مخلوقات اس کا جینا حرام کردیتے۔ یہ محافظ انسان کو کسی بھی فعل کی حالت میں آفات سے بچاتے ہیں۔
اسی تناظر میں مذہب کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ خالقِ کائنات نے مرنے کے بعد بھی ارواح کے رہنے کی جگہ مقرر کر رکھی ہے جسے برزخ کہا گیا ہے جس کے بارے میں ایمان ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مرنے والوں کی روحیں جمع ہوتی جاتی ہیں۔ قرآن شریف میں برزخ کو مرنے سے لے کر قیامت آنے تک ارواح کا ٹھکانہ بتایا گیا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گی ۔ معنوی لحاظ سے برزخ ایک ایسا پردہ یا رکاوٹ ہے جس سے انسانی روح اوپر بھیجی جاتی ہے مگروہ دنیا میں واپس نہیں آسکتی ۔ وہیں سے نیکوکاروں کو جنت کے اور گناہ گار وں کو دوزخ کے نظارے کروائے جائیں گے۔ برزخ کے متعلق بعض قصوں اور کتابوں میں قیاسات بھی گھڑے گئے ہیں جن کا مذہبی تعلیم سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برزخ میںآدمی کی روح کو کسی تکلیف ،آرام، خوشی یا غمی کا احساس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اسے اپنے وجود کا بھی احساس نہیں ہوگا مگر یہ باتیں غلط العام ہیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے برزخ میں انسانی روح نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ بات چیت کرسکنے کے ساتھ دوسروں کی باتیں بھی سن سکتی ہے کیوں کہ اس کے جذبات و احساسات مارے نہیں جاتے اس لئے وہ خوشی اور رنج کا احساس کر سکتی ہے لیکن واپس دنیا میں نہیں آسکتی ہے۔
لفظ جن کا مطلب۔
لغت کی رو سے اہلِ عرب ہر اس چیز کو جن کہتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے نظر نہ آئے ،اس لئے وہ اپنے قصوں اور کہانیوں میں فرشتوں کو بھی جن کہتے ہیں کیوں کہ وہ بھی نظر نہیں آتے ۔ چوں کہ بہشت بھی انسانی نظروں سے پوشیدہ ہے اس لئے اسے جنت کہا جاتا ہے جنت یا مجنوں لفظ بھی جن کے لفظی خاندان میں سے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں مجنوں اس شخص کو کہتے ہیں جس پر جن مسلط ہوجائے ۔ جن لفظ کی اصطلاحی معنی یہ ہے کہ وہ مخلوق جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئی ہو اور مادہ لطافت کے حساب سے ہر شکل بدلنے پر قادر ہو اسے جن کہا جاتا ہے۔
جنات کی پیدائش۔
عجائب القصص میں مفتی عبدالواحد قرآن شریف کی آیت والجان خلقناہ من نارالسموم سے نظریہ مستعار لے کر رقم طراز ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی قدرت سے ایک ایسی آگ پیدا کی جس میں نوربھی تھا اور ظلمت بھی ، اس آگ کے نور سے فرشتے پیدا کئے ، دھوئیں سے دیو جبکہ آگ سے جنات کو تخلیق کیا۔ فرشتے چونکہ نور سے پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ بالطبع اطاعت الٰہی میں مصروف ہوگئے، دیو یا شیاطین نے ظلمت سے جنم لیا اس لئے کفر، ناشکری اور سرکشی میں پڑگئے جبکہ جنات نور و ظلمت کے مرکب سے ترکیب ہوئے اس لئے ان میں سے بعض نیک ہوئے تو بعض بد۔ تاریخ القدس والجلیل میں قاضی مجید الدین حنبلی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ کے قول والجان خلقناہ من نارالسموم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس جان سے ایک عظیم مخلوق پیدا فرمائی جس کا نام مارج رکھا اور اس کے لئے ایک بیوی مرجہ پیدا کی بعد ازاں اسی جوڑے سے جنات کی نسل بڑھی ۔
جنات کا جسم۔
جنات کا جسم انسان کی روح ہوائی سے مشابہ ہوتا ہے ان میں فرق صرف یہ ہے کہ انسانی روح ہوائی عناصراربعہ کا خلاصہ ہے جبکہ جنات کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے فتح العزیز میں تحریر کیا ہے کہ جنات کا ظاہری جسم انسانی روح ہوائی کی طرح لطیف ہے اور چوں کہ روح کے ساتھ اختلاط بھی ہے جس سے اصل کی لطافت اور بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے ہی وہ مختلف شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ بات درست مانی جاتی ہے کہ جنات مساموں اور رگوں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوکر تغیرات کا باعث بن سکتے ہیںیاکبھی کوئی کثیف جسم اختیار کرکے اپنی مرضی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
جنات کی تعداد یا آبادی۔
جنات چوں کہ انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور چوں کہ ان کا عام انسانوں کے مشاہدے میں آنا ممکن نہیں ہے اس لئے نہ ان کی صحیح تعداد کا علم ہو سکتا ہے نہ ہی ان کی قومی حالات تفصیل سے معلوم کئے جا سکنے کے ہمارے پاس دیگر ذرائع موجودہیں سوائے مذہبی کتابوں اور روحانی عاملوں کے۔ بزرگوں اور عالموں کی روایا ت کے انوساریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تعداد انسانوں سے اگر کم نہیں تو زیادہ بھی نہیں ہوگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ایک جن کی بھی پیدائش ہوتی ہے۔
جنات کی قسمیں اور خصوصیات۔
جناب رئیس امروہوی نے جنات نامی اپنی کتاب میں جنات کی دس قسمیں بتائی ہیں۔
 ۱۔ ابلیس ، ۲۔ شیاطین، ۳۔ مروہ، ۴۔ عفاریت، ۵۔ اعوان، ۶۔ غواصون، ۷۔ طیارون، ۸۔ توابع، ۹۔ قرنا اور ۱۰۔عمار۔
 جنات کی تین اہم خصوصیات یہ ہیں کہ ایک تو وہ نظر نہیں آتے، دوسری یہ کہ وہ جو شکل و صورت اختیار کرتے ہیں یا جس مخلوق کا روپ دھار یں ان کی آوزبھی اسی مخلوق جیسی ہو جاتی ہے، اور تیسری یہ کہ جب کوئی انسان انہیں کوئی بھی قسم دے تو وہ اس کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اہلِ جنات کی بے شمار قسمیں بتائی جاتی ہیں جن میں بعض انسانوں کی طرح بے حد خطرناک ، بعض بے ضرر، بعض قوی توبعض کمزوربھی ہوتے ہیں۔ ان کے کچھ گروہ انسانوں سے میل ملاپ کرنے میں عار نہیں سمجھتے بلکہ اس تعلق کو پسند بھی کرتے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی آبادی انسانوں سے گھل مل جانے کے خلاف ہوتی ہے ۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت نبوی سے پیشتر اہلِ جنات اور انسانوں کے درمیاں شادی بیاہ ہوا کرتی تھی۔ حضور صلعم کا حضرت ابو حریرہ سے بیان ہے کہ بیبی بلقیس ذوجہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں جنات میں سے تھی۔ فتاوائے سراجیہ میں جنات اور انسانوں کے باہمی نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا وزیر آصف بن برخیا بھی ایک جن تھا جس نے حضرت کے حکم پر کچھ پڑھ کر پھونکا تو سینکڑوں میل دور بیٹھی ہوئی بیبی بلقیس کا تخت پلک جھپکنے کی دیرحضرت سلیمان کی دربار میں پہنچ گیا ۔ اہل علم کا ماننا ہے کہ آصف برخیا اسمِ اعظم کا عامل تھا جس کے پڑہنے سے فرشتوں نے وہ عمل ممکن بنا یا تھا۔
اس سلسلے میں براق کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر اس طرح گیا ہے کہ وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندے (حضور صلعم) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جن کے گرد ا گرد ہم نے برکتیں کر رکھی ہیں تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔ ایک حدیث میں اس سواری کے جانور کو ایک گھوڑا بیان کیا گیا ہے لیکن بیشتر حدیثو ں میں اسے براق یا ابراق کہہ کر اس کا حلیہ خچر اور گدھے کی درمیانی جسامت کا جانور بتایا گیا ہے جس کے کان لمبے، خوبصورت زین اور لگام سجی ہوئی تھی۔ جس کا رنگ سفید ، جسم پر حیران کردینے والی چمک اور رفتار بہت تیز تھی۔ اس جانور کا ہر قدم حدِ نظر تک فاصلہ طے کرتا تھا جبکہ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کی پنڈلیوں کے ساتھ پر لگے ہوئے تھے ۔ الہامی کتابوں میں اس سے پہلے بھی براق سے ملتی جلتی سواریوں کا ذکر نبیوں کی زندگیوں میں ملتا ہے۔ مصوروں نے براق کی ایسی بھی تصویریں بنائیں جن میں براق کا چہرہ عورت کا باقی جسم گھوڑے کا دکھا یا گیا ہے جس کی کمر کے دونوں طرف بڑے بڑے پر تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ براق اصل میں کونسی مخلوق تھی ، وہ کوئی فرشتہ تھا یاکوئی دوسری مخلوق یا پھر وہ بھی اہل جنات میں سے تھا۔ کیوں کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ جب حضور صلعم اس پر سوار ہونے لگے تو پہلے اس نے بھی شیطان کی طرح منہ زوری دکھاکر سرکشی سے دم ہلائی تھی جس پر حضرت جبرائیل نے جو براق کو آپ صلعم کی سواری کے لئے لائے تھے اس کی سرزنش کی کہ اے براق خدا کی قسم ایسا عظیم الشان انسان تجھ پر کبھی سوار نہیں ہواہوگا۔ حضرت جبرائیل کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس براق پر پہلے بھی سواریاں ہوتی رہی ہوں گی ۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ وہ کس قسم کی مخلوق تھا جسے آسمانوں پراس جگہ جانے کی اجازت تھی جہاں حضرت جبرائیل جیسا فرشتہ بھی نہیں جا سکتا تھا، کیا وہ بھی عزازیل کی طرح کوئی خدا کا برگزیدہ جن تھا۔
جنات کا مذہب و عقائد۔
جنات مذاہب کے لحاظ سے انسانوں کی طرح ہیں، وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں، ہندو، عیسائی، لادین، ڈیڈھ، یہودی بھی، ان میں قدریہ بھی ہیں، مرجیہ بھی ، رافضی بھی ہیں، تفضیلیہ بھی ، مجوسی بھی توستارہ پرست بھی۔ انسانوں کی طرح ہی جنات عقائد کے لحاظ سے مختلف گروہوں اور قوموں میں تقسیم ہوتے ہیں ہیں۔ جنات کے فرقوں کے متعلق تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ جنات کے چار فرقے ہیں جن میں سے پہلافرقہ ان کافر جنات کاہوتا ہے جو اپنے کفر کو پوشیدہ نہیں رکھتے اور بنی آدم کو جہاں تک ممکن ہوتا ہے بہکاتے ہیں یہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ان سے غیب کی خبریں پوچھی جائیں اور مصیبت کے وقت ان سے مدد مانگی جائے یہ لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ ہم تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے۔ یہ انسانوں میں شرک پھیلاتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرنے سے انہیں روکتے ہیں ، یہ کافروں کی بھی حتی المقدور مدد اور اعانت کرتے ہیں ۔
دوسرا فرقہ ان منافق جنات کا ہے جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں مگر دلی طورپر اپنے مکر و فریب سے انسانوں کی خرابی کے درپے رہتے ہیں ایسے خباث اپنے آپ کو بزرگوں کے نام سے مشہور کرکے لوگوں سے اپنی تکریم کراتے ہیں۔ تیسرا فرقہ ایسے فاسق جنات کا ہے جو انسانوں کو طرح طرح سے ستاتے ہیں ایسے جنات اپنے واسطے نذر ونیاز، مٹھائی ، پانی شربت وغیرہ سب کچھ قبول کرلیتے ہیں۔ چوتھا فرقہ ایسے چوردل جنات کا ہوتا ہے جو بعض انسانوں کی روح کو بد خلقی، غرور، کینہ یا حسد اور نجاست میں مبتلا کرکے آلودگی کی طرف کھنچ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ ڈالتے ہیں۔
جنات کا کیمیائی فارمولا۔
جنات گندھک کے کیمیاوی مواد سے وجود میں آئے ہیں ۔ سلفر اور فلورین گیسوں کے سالمات آگ سے بنی ہوئی مخلوق کے لئے مناسب مواد کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ ان دونوں گیسوں کے ایٹم ہائیڈروجن کے ایٹموں سے زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ جس طرح زمین پر پائی جانے والی تمام مخلوق کی کیمیاوی ترکیب میں ہائیڈروکابونزکے عنصر بروئے کارلائے گئے ہیں اسی طرح زمین یا دیگر سیاروں میں کوئی بھی مخلوق کاربونز مصالحے سے وجود میں آسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر جیسے سلفر اور فلورین کے سالموں کی ترکیب سے جنات جیسی خصوصیتیں رکھنے والی مخلوق بھی جنم لے سکتی ہے کیوں کہ حیات مابعدالحیات کی رو سے سلفر اور فلورین کے مرکبات سے ایسی آتشین مخلوق کا وجود کوئی انہونی بات نہیں ہوگی جو آٹھ سو درجہء حرارت پر زندہ رہ سکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسی طرح سلیکان نامی عنصر کے ایٹموں کوبھی ناری مخلوق کی تخلیق کے لئے بنیادی مصالحے کی حیثیت سے استعمال میں لایاجا سکتا ہے۔ علمِ کیمیا بتاتا ہے کہَ فلورو کاربونز اور سلیکان سے بنی ہوئی مخلوق ایسے لطیف جسموں کی مالک ہو سکتی ہے جن میں وقتِ ضرورت اپنے آپ کوہر قسم کے سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت ہوگی۔ ان کا جسمانی نظام غذا کی ضرورت سے بے نیاز ہو گا اوروہ زندہ رہنے کے لئے درختوں اورپودوں کی طرح براہِ راست سورج سے توانائی حاصل کر سکے گی۔
اگر کسی سیارے پر آٹھ سو ڈگری فارن ہائٹ درجہء حرات پایا جاتاہے تو جنات جیسی آتشین مخلوق وہاں بخوبی زندگی بسر کر سکتی ہے مثال کے طور پر مشتری انتہائی گرم سیارہ ہے جس پر ہماری زمین کی نباتات اور حیوانات ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتے البتہ سلیکان سے بنے ہوئے اجسام یا جنات وہاں سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح جدید سائنس کی رو سے کائنات میں زندگی کی بے شمارساختوں، ڈھانچوں اور لباسوں میں موجود ہونے کے امکانات ہیں اور عین ممکن ہے کہ زندگی کا ایک نمونہ ،ڈھانچہ یا لباس وہی ہو جو دیو ، پری ، جنات اور فرشتوں کے وجود جیساہو ، علم الحیات کی نئی شاخ مابعد الحیاتیات کا موضوع فکرزمین اور کائنات میں زندگی کے یہی امکانا ت ہیں۔
جن یا آتشین مخلوق۔
جنات کی تخلیق خالص آگ اور نارِ سموم یعنی گرم ہوا سے کی گئی ہے اس لئے ان کی جسمانی ساخت کی خاک زادوں سے قطعی مختلف ہونی چاہیے۔ نارِ سموم ایسی گیس کو کہاجاتا ہے جس میں گرمی ہو نہ دھواں، جو ہوا کی طرح خلا میں رواں دواں رہتی ہو ، جس کے نزدیک وقت اور فاصلہ بے معنی چیز ہو۔ یہ بھی ممکن ہے خالص نارسموم سے بنے ہوئے جاندارکائنات میں پھیلے ہوئے سیاروں کے درمیاں روشنی کی طرح ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہوں اور وہ مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت رکھنے کے ساتھ غذاکھانے کے مسئلے سے بھی بے نیاز ہو اور وہ اپنی عظیم الشان قوتوں کے انوسار ٹھوس جسموں سے گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ علمی، مذہبی اور سائنسی لحاظ سے جنات کی جو خصوصیات ہمارے علم میں آئیں ہیں ان میں سے بیشتر مذکورہ بالا خصوصیتوں ملتی جلتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جنات کے بارے میں روایتوں ،کہانیوں اورمشاہدوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنات کھانا کھاتے ہیں۔ میرے بھائی جاوید رضاموریوکی ایک علی رامش راکشی نامی جن کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی جو ہمارے ایک عزیز صدا بھٹی کے جسم میں سرایت کیا کرتا تھا۔ جاوید نے بتایاکہ ایک مرتبہ ہم رحمت پور محلہ میں اپنے دوست گاد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صدا پر جن آگیا اور روٹی کھانے کی فرمائش کی اور بیٹھے بیٹھے بیس پچیس روٹیا ں کھاگیااور کچھ بچی روٹیاں اس نے یہ کہہ کہ کر صدابھٹی کے جیکٹ کی جیب میں رکھ لیں کہ وہ اپنے دو بچوں کے لے جائے گا۔ کچھ دیر بعد جب علی رامش راکشی لڑکے کے جسم سے چلا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ جیکٹ کی جیب میں سے روٹیاں بھی غائب تھیں۔ اسی بات کی تصدیق سائیں ارباب شاہ نے بھی کی کہ وہ بالکل انسانوں کی طرح کھانا کھاتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
کیا جنات کو اپنی اصل صورت و شکل میں دیکھنا ممکن ہے؟۔
امام شافعی کے نزدیک اس شخص کی شہادت مردود ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں نے جن کو اس کی اصل شکل و صورت میں دیکھا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں آکر دکھائی دے سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنات اپنی اصل صور ت میں کسی کو نظر نہیں آتے اس لئے کہ ان کا جسم لطیف ہوتا ہے کثیف جسم کی آنکھوں سے لطیف چیز دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر میں سینکڑوں ایسے انسانوں سے ملا ہوں جنہوں نے جنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جن کی مجموعی بیان ہے کہ وہ قد میں تین فٹ سے زیادہ کے نظر نہیں آتے گھومنے پھرنے میں انسان کے پانچ سات سالہ بچوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ میری بڑی بہن افتخار موریوکی والدہ کو بھی ایک بڑے عرصے سے اہل جنات نے مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا اس نے بھی سینکڑوں جنات دیکھے اس نے بتایا کہ میری نظر میں صرف ایک بزرگ جن ایسا آیا جو قد کاٹھ میں مکمل انسانوں کی طرح تھا ورنہ سارے کے سارے کامران(اس کے پوتے جو مشکل سے چھ سال کا ہوگا)کے قد کے ہوں گے اور ان کے جسموں پر بھورے رنگ کے بال بھی تھے۔
جنات کے اثرات۔
اہلِ جنات جس طرح مختلف مذاہب اور فرقوں سے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح طبیعت اور رحجانوں کے حساب سے کچھ صلح جو ہیں تو کچھ ٖغلط کار ،کچھ نیک ہیں تو کئی بدکار، ان میں اچھے بھی ہیں تو بدمعاش بھی۔ نیک انسانوں کی طرح نیک جنات بھی دوسری مخلوق کو آزار پہنچانے کو گناہ سمجھتے ہیں مگرشریرِ جنات انسان ذات کو ستانے کے قبیح کام سے باز نہیں آتے ۔ ساتویں اقلیم کے بادشا جنات اور مسلمان جنات سے ملاقات کے نتیجہ میں علامہ مغربی تلمسانی نے شریر جنات کی ایذا رسانی کے متعلق اسمائیل وزیر شاہ جنات کا قول نقل کیا ہے کہ ۔ جنات عورتوں اور مردوں کو ستایا کرتے ہیں ۔ ان کی بیشمارا قسام ہیں جن میں سے بیشتر کے بارے میں مجھے علم ہے۔ جنات کی ایسی بھی اقوام ہیں جن میں ستر ہزار قبیلے ہیں اور ہر قبیلے میں ستر ہزار افرادہوتے ہیں ان کی آبادی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آسمان سے سوئی پھینکی جائے تو وہ زمین پرنہیں گرے گی بلکہ ان کے سروں پر رک جائے گی۔
جنات کے رہنے کی جگہ ۔
روائتیں ہیں کہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے جنات کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا گیا تھا۔ پھر جب ان کی نسلی بود و باش کے لئے زمین پر جگہ نہ رہی تو کچھ جنات کو ہوا میں رہنے کی جگہ عطا فرمائی گئی۔ ابلیس اور اس کی اولاد کوبھی ہوا میں رہنے کی جگہ دی گئی۔ حضرت ابن لباس کی روایت ہے کہ جنات کے ہر گروہ کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ مقرر تھی۔ جنات ان مقامات سے وحی الٰہی منکر اپنی طرف سے کچھ باتیں ملاکر کاہنوں سے بیان کرتے تھے ۔ حیاۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جنات کو تین اقسام میں پیدا کیا ہے ایک قسم جنات کی وہ ہے جو حشرات العرض کی صورت میں زمین میں موجود ہیں، دوسری قسم وہ ہے جو فضا میں ہوا کی طرح رہتی ہے اور تیسری جنات کی قسم بنی آدم کی طرح ہے۔ جنات میں سے عفریت چشموں اور گڑھوں میں رہتے ہیں، شیاطین شہروں اور مقبروں دونوں جگہ آبادہوتے ہیں جبکہ طواغیت خون آلودہ جگہہوں پر بود و باش رکھتے ہیں۔ انہی کی ایک قوم زذابعہ ہوا ؤں میں رہتی ہے او ر بعض بڑے بڑے شیطان آگ کے قریب مسکن رکھتے ہیں اور بعض تواقیف عفاریت یعنی وہ جنات جو عورتوں کی شکل میں متشکل ہوتے ہیں بڑے بڑے درختوں کے پاس (باغات میں)مقام رکھتے ہیں جبکہ بعض پہاڑوں اور ویران مقامات پر ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں۔
شیطان ، اس کا خاندا ن اور اس کے حواری چوں کہ ہوا میں رہتے تھے اس لئے جب وہ ہوا میں رہتے ہوئے گھبرائے تو خدا تعالی سے زمین پر رہنے کی درخواست کی جو قبول کی گئی مگر جب وہ زمین پر آباد ہوئے تو یہاں بھی شرات سے باز نہیں آئے اور گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو زمین نے بارگاہ یزدان میں ان کی شرارتوں کے خلاف شکایت کی جس پر خدا تعالیٰ نے اسے تسلی دی کہ میں ان شریر وں کی ہدایت کے لئے اپنے رسول بھیجوں گاحضرت نکعب احبار سے روایت ہے کہ جنات کی امت کے لئے آٹھ سو سال تک آٹھ سو رسول بھیجے گئے یعنی ہر سال کے حساب سے ایک رسول جیسا کہ عامر بن عمیر، بن الجان، صاعق بن ماعق بن مارد، بن الحیان وغیرہ مگر جنات ان سب کو قتل کرتے رہے ۔
شیطان کی حقیقت۔
شیطان اصل میں ایک جن ہے جس کا اصل نام عزازیل تھا ، جس طرح حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کا جدِ امجد ہے اسی طرح شیطان تمام جنات کا باپ ہے اس نے جنات کے ایک قبیلے بنواالجان کی ایک لڑکی سے شادی کی تھی جس سے اس کی نسل بڑھی۔ اس نے اپنی عبادت اور ریاضت سے خدا تعالی کے پیارے بندوں میں مقام حاصل کرلیا تھا مگر ایک لغزش کی بدولت ربوی لعنت کا سزاوار ہوکر ابلیس بن گیااوراس کا خوبصورت چہرہ بگاڑ دیا گیا۔ ایک دور میں ابلیس معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد تھا جو عرش کے نیچے ممبر پر نور کے جھنڈے کے سائے تلے بیٹھ کر فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا اوراس کے رہنے کی جگہ جنت میں تھی۔ روایت ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے فرشتے سو سے پانچ سوسال تک آدم کو کئے ہوئے سجدے میں رہے جب انہوں نے سر اٹھایا تو ابلیس کو اسی طرح کھڑے ہوئے پایامگر اس کی شکل بگڑ چکی تھی۔ خدا تعالی ٰ نے پوچھا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا تواس نے جواب دیا کہ خلقتنی من نار خلقتہ من طین یعنی مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کومٹی سے ، بھلا افضل بھی مفضول کو سجدہ کرتا ہے۔ شیطان مخلوق میں پہلا جاندار تھا اور دوسرا آدم جنہوں نے خدا تعالی کے حکم کی خلاف ورزی کی اور دونوں کو اس کی سزابھی ملی اور وہ عداوت جوآدم اور ابلیس کے درمیاں جنت سے شروع ہوئی تھی بنی آدم اور بنی شیطان میں آج تک چل رہی ہے۔
جنات اور شیطان دونوں اصل کے اعتبار سے ایک ہی مخلوق ہیں مگر ان میں جوایمانداراور انسان دوست ہیں انہیں جنات کے نام سے اور جو شرارتی یا بے ایمان ہیں انہیں شیطان کہا جاتا ہے۔ کفر، بدعت، سفائر، مباحات اور غیر افضل اعمال کی ترغیب وغیرہ شیطان کے انسانوں کوصراط المستقیم سے بھٹکانے کے مورچے ہیں ۔ طبرانی میں روایت ہے کہ ابلیس حضور صلعم کی پیدائش پر اتنا رویاتھا کہ اس کے سارے پیروکار جمع ہوگئے تو اس نے ان سے کہا اب تم ناامید ہوجاؤ کیوں کہ تم سے رسولِ خدا کی امت کبھی بھی مرتد نہیں ہوسکے گی البتہ ان کے درمیاں دین کی باتوں کو بنیاد بناکر فتنہ ڈالو، نوحہ گر ی اورشعر گوئی کو رواج دو۔ حضور صلعم کا قول ہے کہ ہر گھنگھرو کے ساتھ ایک شیطان لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ حیواۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ ابلیس کی داہنی ران میں مرد کی شرمگاہ جبکہ عورت کی شرمگاہ بائیں ران میں ہوتی ہے جس سے ہر روز دس انڈے نکلتے ہیں۔
حضرت مجاہد کے بقول شیطان نے اپنے اولادوں کو مختلف کاموں کے لئے مامور کر رکھا ہے اور ان میں سے اہم کے نام و کام مندرجہ ذیل ہیں۔
لاقیس، ولہان۔ یہ دونوں وضو اور نماز پر مامور ہیں اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
نیعاف۔ یہ لڑکا صحرا میں شیطانیت پھیلاتا ہے۔
زلنبور۔ یہ بازاروں پر مامور ہوتے ہیں لوگوں کو جھوٹی تعریفوں اور قسموں پر اکساتا ہے۔
بشر۔ یہ شیطان مصیبت زدہ لوگوں کو جہالت کے کاموں پر ترغیب دیتا ہے جیسا کہ نوحہ گری،ماتم، گریبان چاک کرنا، چہرے کو نوچنا وغیرہ۔
ابیض۔ یہ زناکو پھیلانے پر مامور ہے اور مخصوص وقت کے دوران عورت اور مرد کی شرمگاہوں پر مامور ہوتا ہے۔
واسم۔ ان کا کام ہے کہ جب کوئی شخص سلام کئے یا اللہ کا نام لئے بغیر گھر میں داخل ہو تو گھر والوں میں فساد کرائیں۔
مطوس۔ ان کو کام دیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیاں غلط اوربے بنیاد باتیں پھیلائیں۔
مسبوط ۔ لوگوں کو جھوٹ بولنے پر اکساناان کے فرائض میں شامل ہے۔

کیا انسانوں کو نادیدہ مخلوقات سے ڈرنا چاہیے؟۔
اس مخلوق کی جسمانی ترکیب اور دماغی ساخت انسان سے مختلف اور کم درجے کی مگر ایسے عناصر سے بنی ہوتی کہ ان کے جسم نظر بھی آسکتے ہیں نہیں بھی آسکتے، ان میں اپنی مرضی کی ہر صورت اختیار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی وہ انسانی دماغ کی طاقتور لہروں سے خوفزدہ رہتے ہیں کیوں کہ انسان کے اعصابی نظام اور دل و دماغ سے نکلنے والی طول موج کی لہریں ان کے وجود کے لئے زہریلی گیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جس طرح آج کا انسان دوسری عنصری قوتوں جیسا کہ بھاپ، بجلی ، ایٹمی توانائی اور مقناطیسیت وغیرہ کوتسخیر کر کے انہیں اپنے مفادمیں استعمال کر رہا ہے اسی طرح اپنی خود اعتمادی اور قوت ارادی سے ان عنصر زاد مخلوقات کو تابع بنا یاجا سکتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کوآسیب ، جنات یا چھلاؤں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

آسیب کیا ہوتا ہے؟۔
یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ قوی ارادہ رکھنے والے انسانوں پر نہ عالم مادی کی قوتین اثر انداز ہوتی ہیں نہ عالم ارواح کی۔ تصوفی پیروکار کہتے ہیں کہ انسان کا ارادہ بجائے خود مشیت الٰہی ہے جسے بروئے کار لاکر وہ ظاہر ی اور باطنی کائناتوں کو مسخر کر سکتا ہے۔ انسان کے اندر جتنی صفائی، قلب میں جتنی پاگیزگی اور ذہن میں مثبت جذبات جتنی فراوانی سے ہوں گے اس کے سامنے کائنات کی تمام قوتیں اتنی ہی حقیر ہوں گی۔ لیکن اگر کسی انسان کا ارادہ یا ذہن کمزور اور قلبی دنیا آلودہ ہوگی تو مادی اور ارواح دنیا کی قوتیں اس پر آسانی سے اثر انداز ہوجاتی ہیں جنہیں دوسرے لفظوں میں آسیب، سایہ یا بھوت پریت بھی کہا جاتا ہے۔
علم الارواح کامطالعہ اپنے الفاظ میں بتاتا ہے کہ فضا میں کچھ کم شعور توانائیاں کارفرما ہوتی ہیں جنہیں ہم ایک دھندلی یا ادھوری شخصیت کی مثال دے سکتے ہیں، ان نیم تاریک آوارہ گردوں کی اکثر حرکات غیر ارادی اور خود کار ہوتی ہیں جو انسانی شعور اور ارادے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ خلا میں تیرنے والی یہ قوتیں کردوں اور اکائیوں میں تقسیم ہیں اورجوتمام کی تمام محدود اور ناقص وجود کی مالک ہوتی ہیں، انہی اکائیوں کو عنصری مخلوق یا قوائے عنصری یا آسیب بھی کہا جاتا ہے۔

آسیب زدگی اور مالیخولیا کی حقیقت۔
جہاں تک آسیب زدگی کا تعلق ہے تو انسانوں پر واقع ہونے والے اس قسم کے اکثر واقعات جنہیں ہم آسیب زدگی یاجناتی دورے سمجھتے ہیں محض تقسیم شخصیت اور مالیخولیاکی بیماری کے سبب ہوتے ہیں جن کی بنیاد خالص اعصابی ، دماغی ، جذباتی اور ذہنی ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کچھ واقعات کی دیگر توجیہات بھی ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک آسیب زدگی بھی ممکن ہے۔ آسیب زدہ مریضوں کے ذہن کی چھان بین کے بعد نفس انسانی کے بارے میں عجیب و غریب معلومات ملتی ہیں کہ کسی آسیب زدہ، جن گرفتہ یا مالیخولیا کے مریض کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔ جن گرفتہ افراد کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں، ایک آسیبی یا جناتی اوردوسری حقیقی ( نارمل) شخصیت اور یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے انجان اور متضادپائی گئیں ہیں جو اکثر اوقات ایک حد تک خود مختار بھی ہوتی ہیں۔ جب انسانی ذہن کا ایک حصہ (مثلاً آسیب زدہ)بروئے کار آتا ہے تو وہ مریض کے تمام نظام تصورات، نظام جذبات، نظام محسوسات ،آواز ونداز، آنکھوں کے اشارے ، چہرے کی رنگت ، حرکاتِ جسم الغرض تمام کردار کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے اور جب ذہن کا دوسرا حصہ یا دوسری شخصیت ابھرتی ہے تو وہ مریض بالکل الگ رنگ و روپ میں نظر آتا ہے۔
جس طرح ہر نارمل شخص کسی نہ کسی وقت ایب نارمل ہوتا ہے اسی طرح دنیا میں دوہری، تہری بلکہ چوہری شخصیت کے مالک لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کی شخصیت خالص جذباتی وجوہات کے زیر اثر دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور جوں جوں ذہن کے ان کٹے ہوئے حصوں کے درمیاں جدائی کی خلیج چوڑی ہوتی چلی جاتی ہے توں توں ان کی مالیخولیائی کیفیت ، جذباتی کشمکش، اعصابی کمزوری اور نفسیاتی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر پاگل بھی ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ سے کچھ فرض کر لیتے ہیں۔
ہم اکثر اوقات سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو جن ہے مگر کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ کوئی جن یا بھوت نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے گھٹے ہوئے، دبائے ہوئے اور کچلے ہوئے طوفانی جذبات کاآسیب ہے جو مخصوص سماجی اور گھریلوحالات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ ان تیز و تند جذبات کا ابلاؤ جب اپنی اندرونی کیفیات کے لئے اپنے ذہن میں موجود جگہ کم پاتا ہے تو وہ اپنی ہیجانی خواہشات کی نکاسی، اخراج یا اظہار کا جو ایک ذریعہ پیدا کر تا ہے وہ یہی جنون کا راستہ ہوتا ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب انسان اپنی جذبات کی سلگتی ہوئی بارود کو مسلسل دبانے کی کوشش کرتا ہے تو ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب کسی اندرونی یا بیرونی تحریک سے مشتعل ہوکراس کے مقید جذبات جوالا مکھی کی طرح پھٹ کر انسان کو سچ مچ بھوت بنا دیتے ہیں ۔ اس قسم کے جذباتی حادثوں سے انسانی ذہن جو ایک ٹکڑے یا حصے کی طرح ہے وہ منتشر ہوکر متعدد ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ آسیب زدگی ، ہسٹریا، مرگی، دماغی دورے،اختلاج قلب، ہذیان، سوتے جاگتے بڑبڑانا ، نیند میں چلنا ،بے انتہا جذباتی ہیجان کے تحت سنگین ارتکابِ جرائم یا خودکشی جیسے تمام معاملات ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان جذباتی کیفیتوں کے اثرات نہ صرف ذہن پر شدید پڑتے ہیں بلکہ یہ جسم کو بھی اپنی لپیٹ میں لاکر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔

کیا آسیب یا جنات سے ڈرنا چاہیے؟۔
اس مخلوق کی جسمانی ترکیب اور دماغی ساخت انسان سے مختلف اور کم درجے کی مگر ایسے عناصر سے بنی ہوتی کہ ان کے جسم نظر بھی آسکتے ہیں نہیں بھی آسکتے، ان میں اپنی مرضی کی ہر صورت اختیار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی انسانی دماغ کی طاقتور لہروں سے خوفزدہ رہتے ہیں کیوں کہ انسان کے اعصابی نظام اور دل و دماغ سے نکلنے والی طول موج (ویو لینتھ) کی لہریں ان کے وجود کے لئے زہریلی گیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انسان نے جس طرح دوسری عنصری قوتوں جیسا کہ بھاپ، بجلی ، ایٹمی توانائی اور مقناطیسیت وغیرہ کوتسخیر کر کے انہیں اپنے مفادمیں استعمال کر رہا ہے اسی طرح اپنی خود اعتمادی اور قوت ارادی سے ان عنصر زاد مخلوقات کو تابع بنا یاجا سکتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کوآسیب ، جنات یا چھلاؤں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

No comments:

Post a Comment

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ حصہ اول

  جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ انسان ذات کی تاریخیں، ادب ،روایات وغیرہ میں...