جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟
حصہ سوئم
جنات
کے اثرات اور انکے مزاج؟
اہلِ
جنات جس طرح مختلف مذاہب اور فرقوں سے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح طبیعت اور رحجانوں
کے حساب سے کچھ صلح جو ہیں تو کچھ ٖغلط کار ،کچھ نیک ہیں تو کئی بدکار، ان میں
اچھے بھی ہیں تو بدکماش بھی۔ نیک انسانوں کی طرح نیک جنات بھی دوسری مخلوق کو آزار
پہنچانے کو گناہ سمجھتے ہیں مگرشریرِ جنات انسان ذات کو ستانے کے قبیح کام سے باز
نہیں آتے ۔ ساتویں اقلیم کے بادشا جنات اور مسلمان جنات سے ملاقات کے نتیجہ میں
علامہ مغربی تلمسانی نے شریر جنات کی ایذا رسانی کے متعلق اسمائیل وزیر شاہ جنات
کا قول نقل کیا ہے کہ ۔ جنات عورتوں اور مردوں کو ستایا کرتے ہیں ۔ ان کی بیشمارا
قسام ہیں جن میں سے بیشتر کے بارے میں مجھے علم ہے۔ جنات کی ایسی بھی اقوام ہیں جن
میں ستر ہزار قبیلے ہیں اور ہر قبیلے میں ستر ہزار افرادہوتے ہیں ان کی آبادی کا
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آسمان سے سوئی پھینکی جائے تو وہ زمین
پرنہیں گرے گی بلکہ ان کے سروں پر رک جائے گی۔
جنات
کے رہنے کی جگہیں؟
روائتیں
ہیں کہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے جنات کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا گیا تھا۔
پھر جب ان کی نسلی بود و باش کے لئے زمین پر جگہ نہ رہی تو کچھ جنات کو ہوا میں
رہنے کی جگہ عطا فرمائی گئی۔ ابلیس اور اس کی اولاد کوبھی ہوا میں رہنے کی جگہ دی
گئی۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ جنات کے ہر گروہ کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی
جگہ مقرر تھی۔ جنات ان مقامات سے وحی الٰہی منکر اپنی طرف سے کچھ باتیں ملاکر
کاہنوں سے بیان کرتے تھے ۔
حیاۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے
فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جنات کو تین اقسام میں پیدا کیا ہے
ایک قسم جنات کی وہ ہے جو حشرات العرض کی صورت
میں زمین میں موجود ہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جو فضا میں ہوا کی طرح رہتی ہے
اور
تیسری
جنات کی قسم بنی آدم کی طرح ہے۔
رہنے
کی جگہیں۔
جنات
میں سے
1۔عفریت
چشموں اور گڑھوں میں رہتے ہیں۔
2۔
شیاطین شہروں اور مقبروں دونوں جگہ آبادہوتے ہیں۔
3۔
طواغیت خون آلودہ جگہہوں پر بود و باش رکھتے ہیں۔ انہی کی ایک قوم
4۔
زذابعہ ہوا ؤں میں رہتی ہے او ر بعض بڑے بڑے
5۔شیطان
آگ کے قریب مسکن رکھتے ہیں اور بعض
6۔
تواقیف عفاریت یعنی وہ جنات جو عورتوں کی شکل میں متشکل ہوتے ہیں بڑے بڑے درختوں
کے پاس (باغات میں)مقام رکھتے ہیں جبکہ بعض پہاڑوں اور ویران مقامات پر ڈیرہ ڈالے
رہتے ہیں۔
شیطان
، اس کا خاندا ن اور اس کے حواری چونکہ ہوا میں رہتے تھے اس لئے جب وہ ہوا میں
رہتے ہوئے گھبرائے تو خدا تعالی سے زمین پر رہنے کی درخواست کی جو قبول کی گئی مگر
جب وہ زمین پر آباد ہوئے تو یہاں بھی شرارت سے باز نہیں آئے اور گناہوں میں مبتلا
ہوگئے تو زمین نے بارگاہ یزدان میں ان کی شرارتوں کے خلاف شکایت کی جس پر خدا
تعالیٰ نے اسے تسلی دی کہ میں ان شریروں کی ہدایت کے لئے اپنے رسول بھیجوں گاحضرت کعب
بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنات کی امت کے لئے
آٹھ سو سال تک آٹھ سو رسول بھیجے گئے یعنی ہر سال کے حساب سے ایک رسول جیسا کہ
عامر بن عمیر، بن الجان، صاعق بن ماعق بن مارد، بن الحیان وغیرہ مگر جنات ان سب کو
قتل کرتے رہے ۔
شیطان
کی حقیقت؟
شیطان
اصل میں ایک جن ہے جس کا اصل نام عزازیل تھا۔ اس نے جنات کے ایک قبیلے بنواالجان
کی ایک لڑکی سے شادی کی تھی جس سے اس کی نسل بڑھی۔ اس نے اپنی عبادت اور ریاضت سے
خدا تعالی کے پیارے بندوں میں مقام حاصل کرلیا تھا مگر ایک لغزش کی بدولت ربوی
لعنت کا سزاوار ہوکر ابلیس بن گیااوراس کا خوبصورت چہرہ بگاڑ دیا گیا۔ ایک دور میں
ابلیس معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد تھا جو عرش کے نیچے ممبر پر نور کے جھنڈے
کے سائے تلے بیٹھ کر فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا اوراس کے رہنے کی جگہ جنت میں
تھی۔
روایت
ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے فرشتے سو سے پانچ سوسال تک آدم کو کئے ہوئے سجدے میں
رہے جب انہوں نے سر اٹھایا تو ابلیس کو اسی طرح کھڑے ہوئے پایامگر اس کی شکل بگڑ
چکی تھی۔ خدا تعالی ٰ نے پوچھا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا تواس نے جواب دیا کہ خلقتنی من
نار خلقتہ من طین یعنی مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کومٹی سے ،
بھلا افضل بھی مفضول کو سجدہ کرتا ہے۔ شیطان مخلوق میں پہلا جاندار تھا اور دوسرے
آدمعلیہ السلام جنہوں نے خدا تعالی کے حکم کی خلاف ورزی کی اور دونوں
کو اس کی سزابھی ملی۔ لیکن عزازیل معافی نہ مانگنے اور تکبر کرنے پہ راندہ درگاہ
ٹھہرا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام معافی منگنے کیے پہ نادم ہونے کی وجہ
سے مقرب بارگاہ ٹھہرے۔ اور عداوت جوآدم علیہ السلام اور ابلیس کے
درمیاں جنت سے شروع ہوئی تھی بنی آدم اور بنی شیطان میں آج تک چل رہی ہے۔
جنات
اور شیطان دونوں اصل کے اعتبار سے ایک ہی مخلوق ہیں مگر ان میں جوایمانداراور
انسان دوست ہیں انہیں جنات کے نام سے اور جو شرارتی یا بے ایمان ہیں انہیں شیطان
کہا جاتا ہے۔ کفر، بدعت، سفائر، مباحات اور غیر افضل اعمال کی ترغیب وغیرہ شیطان
کے انسانوں کوصراط المستقیم سے بھٹکانے کے مورچے ہیں ۔
طبرانی
میں روایت ہے کہ ابلیس حضرت محمد ﷺ کی پیدائش پر اتنا رویاتھا کہ اس کے سارے
پیروکار جمع ہوگئے تو اس نے ان سے کہا اب تم ناامید ہوجاؤ کیوں کہ تم سے رسولِ
اللہ محمد ﷺ کی امت کبھی بھی مرتد نہیں ہوسکے گی البتہ ان کے درمیاں دین کی باتوں
کو بنیاد بناکر فتنہ ڈالو، نوحہ گر ی اورشعر گوئی کو رواج دو۔ حضرت محمد ﷺ کافرمان
ہے کہ ہر گھنگھرو کے ساتھ ایک شیطان لپٹا ہوا ہوتا ہے۔
حضرت مجاہد کے بقول شیطان نے اپنے اولادوں کو
مختلف کاموں کے لئے مامور کر رکھا ہے اور ان میں سے اہم کے نام و کام مندرجہ ذیل
ہیں۔
لاقیس،
ولہان۔ یہ دونوں وضو اور نماز پر مامور ہیں اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے
ہیں۔
نیعاف۔
یہ لڑکا صحرا میں شیطانیت پھیلاتا ہے۔
زلنبور۔
یہ بازاروں پر مامور ہوتے ہیں لوگوں کو جھوٹی تعریفوں اور قسموں پر اکساتا ہے۔
بشر۔
یہ شیطان مصیبت زدہ لوگوں کو جہالت کے کاموں پر ترغیب دیتا ہے جیسا کہ نوحہ
گری،ماتم، گریبان چاک کرنا، چہرے کو نوچناوغیرہ۔
ابیض۔
یہ زناکو پھیلانے پر مامور ہے اور مخصوص وقت کے دوران عورت اور مرد کی شرمگاہوں پر
مامور ہوتا ہے۔
واسم۔
ان کا کام ہے کہ جب کوئی شخص سلام کئے یا اللہ کا نام لئے بغیر گھر میں داخل ہو تو
گھر والوں میں فساد کرائیں۔
مطوس۔
ان کو کام دیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیاں غلط اوربے بنیاد باتیں پھیلائیں۔
مسبوط ۔
لوگوں کو جھوٹ بولنے پر اکساناان کے فرائض میں شامل ہے۔
جنات انسان کو کس کس
طرح ستاتے ہیں؟
علامہ مغربی تلمسانی
اسماعیل وزیر سے بیان کرتے ہیں کہ کن مختلف طریقوں سے تنگ کرتے ہیں۔
1۔ ایک صورت جن کے اثر یا ستانے کی یہ ہے کہ مرد
یا عورت ، لڑکا یا لڑکی جن کے زیر اثر ہوتے ہی بے ہوش ہوجاتی ہے اور اس کی حالت
مرگی کے مریض کی سی ہو جاتی ہے۔
2۔ شیطان عفریت عام طور پر میاں بیوی میں کھٹ پٹ
کرادیتے ہیں۔
3۔عفریت زوابع عام طور پر ان نئی دلہنوں کو ستایا کرتے ہیں جو ایک دو دن کی بیاہی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کی حالت مثل حالت مذکور ہوجاتی ہے۔
i۔شیاطین مذکور حسین و جمیل عورتوں زیادہ ستایا کرتے ہیں اور ایسی عورتوں پر اس حالت میں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں جن کے بچہ پیدا نہ ہوا ہو۔
ii۔ میدان اسود کے جنات پر اس حالت میں زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں جب وہ غسل کرکے اچھے کپڑے پہنتی ہیں یا تیزخوشبولگاکر باہرچلتی پھرتی ہے۔
iii۔ یا یہی شیطان عفتیت حد سے زیادہ حسین عورت کو بدکاری کے لئے مجبور کرتے ہیں۔
iv۔ یایہی مذکورہ بالا شیاطین بعض اوقات عورتوں کے پیٹ پر پھونک ماردیتے ہیں جس سے بعض اوقات ان کے پیٹ میں تکلیف دہ نفخ پیدا ہوجاتا ہے۔ یا اس عورت کا کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے ۔ یا عورتوں کے جسم کے مختلف حصو ں میں کبھی کبھی درد ہونے لگتا ہے کبھی ہاتھوں میں کبھی پیروں کبھی سر میں کبھی جسم کے دوسرے حصہ میں۔
4۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بادل میںتیرنے والا
کوئی جن کسی عورت پر اثر انداز ہوکر عورت کی ایذا رسانی کا باعث ہوتاہے۔
5۔ پانی کے رہنے والے عفریت بعض اوقات عورت کے
سر یا شرمگاہ پر کوئی چیز ماردیتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عورت اول تو ہم
بستری کے لئے آمادہ نہیں ہوتی اگر زور و جبر کیا گیا تو اس کو سخت تکلیف محسوس
ہوتی ہے۔
6۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ ہاتھوں پیروں کو
زمین پر مارنے لگتی ہے یا اپنا گلا گھونٹ نے لگتی ہے یا اپنے جسم کے کپڑے اتار کر
پھینک دیتی ہے اور اس کو ننکے کھلے یا بے حیائی کا کوئی احساس نہیں ہوتا کبھی مریض
کو غذاسے سخت نفرت ہوجاتی ہے۔
کیا
انسانوں کو نادیدہ مخلوقات سے ڈرنا چاہیے؟
اس
مخلوق کی جسمانی ترکیب اور دماغی ساخت انسان سے مختلف اور کم درجے کی مگر ایسے
عناصر سے بنی ہوتی کہ ان کے جسم نظر بھی آسکتے ہیں نہیں بھی آسکتے، ان میں اپنی
مرضی کی ہر صورت اختیار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی وہ انسانی دماغ
کی طاقتور لہروں سے خوفزدہ رہتے ہیں کیوں کہ انسان کے اعصابی نظام اور دل و دماغ
سے نکلنے والی طول موج(ویو لینتھ)
کی لہریں ان کے وجود کے لئے زہریلی
گیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جس طرح آج کا انسان دوسری عنصری قوتوں جیسا
کہ بھاپ، بجلی ، ایٹمی توانائی اور مقناطیسیت وغیرہ کوتسخیر کر کے انہیں اپنے
مفادمیں استعمال کر رہا ہے اسی طرح اپنی خود اعتمادی اور قوت ارادی سے ان عنصر زاد
مخلوقات کو تابع بنا یاجا سکتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کوآسیب ، جنات یا چھلاؤں سے
ڈرنا نہیں چاہیے۔
آسیب
کیا ہوتا ہے؟
یہ
حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ قوی ارادہ رکھنے والے انسانوں پر نہ عالم مادی کی قوتین اثر
انداز ہوتی ہیں نہ عالم ارواح کی۔ تصوف سے منسلک لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسان کا
ارادہ بجائے خود مشیت الٰہی ہے جسے بروئے کار لاکر وہ ظاہر ی اور باطنی کائناتوں
کو مسخر کر سکتا ہے۔ انسان کے اندر جتنی صفائی، قلب میں جتنی پاگیزگی اور ذہن میں
مثبت جذبات جتنی فراوانی سے ہوں گے اس کے سامنے کائنات کی تمام قوتیں اتنی ہی حقیر
ہوں گی۔ لیکن اگر کسی انسان کا ارادہ یا ذہن کمزور اور قلبی دنیا آلودہ ہوگی تو
مادی اور ارواح دنیا کی قوتیں اس پر آسانی سے اثر انداز ہوجاتی ہیں جنہیں دوسرے
لفظوں میں آسیب، سایہ یا بھوت پریت بھی کہا جاتا ہے۔
اہل علم کا خیال ہے کہ فضا میں کچھ
کم شعور توانائیاں کارفرما ہوتی ہیں جنہیں ہم ایک دھندلی یا ادھوری شخصیت کی مثال
دے سکتے ہیں، ان نیم تاریک آوارہ گردوں کی اکثر حرکات غیر ارادی اور خود کار ہوتی
ہیں جو انسانی شعور اور ارادے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ خلا میں تیرنے والی یہ قوتیں گروہوں
اور اکائیوں میں تقسیم ہیں اورجوتمام کی تمام محدود اور ناقص وجود کی مالک ہوتی
ہیں، انہی اکائیوں کو عنصری مخلوق یا قوائے عنصری یا آسیب بھی کہا جاتا ہے۔
مالیخولیا
کی حقیقت کیا ہے؟
جہاں
تک مالیخولیا کا
تعلق ہے تو انسانوں پر واقع ہونے والے اس قسم کے اکثر واقعات جنہیں ہم آسیب زدگی
یاجناتی دورے سمجھتے ہیں محض تقسیم شخصیت اور مالیخولیاکی بیماری کے سبب ہوتے ہیں
جن کی بنیاد خالص اعصابی ، دماغی ، جذباتی اور ذہنی ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان
میں سے کچھ واقعات کی دیگر توجیہات بھی ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک آسیب زدگی بھی
ممکن ہے۔ آسیب زدہ مریضوں کے ذہن کی چھان بین کے بعد نفس انسانی کے بارے میں عجیب
و غریب معلومات ملتی ہیں کہ کسی آسیب زدہ، جن گرفتہ یا مالیخولیا کے مریض کا ذہن
کس طرح کام کرتا ہے۔ جن گرفتہ افراد کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں، ایک آسیبی یا جناتی
اوردوسری حقیقی ( نارمل) شخصیت اور یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے انجان اور
متضادپائی گئیں ہیں جو اکثر اوقات ایک حد تک خود مختار بھی ہوتی ہیں۔ جب انسانی
ذہن کا ایک حصہ (مثلاً آسیب زدہ)بروئے کار آتا ہے تو وہ مریض کے تمام نظام تصورات،
نظام جذبات، نظام محسوسات ،آواز ونداز، آنکھوں کے اشارے ، چہرے کی رنگت ، حرکاتِ
جسم الغرض تمام کردار کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے اور جب ذہن کا دوسرا حصہ یا
دوسری شخصیت ابھرتی ہے تو وہ مریض بالکل الگ رنگ و روپ میں نظر آتا ہے۔
جس
طرح ہر نارمل شخص کسی نہ کسی وقت ایب نارمل ہوتا ہے اسی طرح دنیا میں دوہری، تہری
بلکہ چوہری شخصیت کے مالک لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کی شخصیت خالص جذباتی
وجوہات کے زیر اثر دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور جوں جوں ذہن کے ان کٹے ہوئے حصوں
کے درمیاں جدائی کی خلیج چوڑی ہوتی چلی جاتی ہے توں توں ان کی مالیخولیائی کیفیت ،
جذباتی کشمکش، اعصابی کمزوری اور نفسیاتی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں
تک کہ وہ مکمل طور پر پاگل بھی ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ سے کچھ فرض کر لیتے
ہیں۔
ہم
اکثر اوقات سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو جن ہے مگر کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اکثر اوقات وہ
کوئی جن یا بھوت نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے گھٹے ہوئے، دبائے ہوئے اور کچلے ہوئے
طوفانی جذبات کاآسیب ہے جو مخصوص سماجی اور گھریلوحالات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ ان
تیز و تند جذبات کا ابلاؤ جب اپنی اندرونی کیفیات کے لئے اپنے ذہن میں موجود جگہ
کم پاتا ہے تو وہ اپنی ہیجانی خواہشات کی نکاسی، اخراج یا اظہار کا جو ایک ذریعہ
پیدا کر تا ہے وہ یہی جنون کا راستہ ہوتا ہے ۔
ہوتا
یوں ہے کہ جب انسان اپنی جذبات کی سلگتی ہوئی بارود کو مسلسل دبانے کی کوشش کرتا
ہے تو ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب کسی اندرونی یا بیرونی تحریک سے مشتعل ہوکراس کے
مقید جذبات آتش فشاں یا جوالا مکھی کی طرح
پھٹ کر انسان کو سچ مچ بھوت بنا دیتے ہیں ۔ اس قسم کے جذباتی حادثوں سے انسانی ذہن
جو ایک ٹکڑے یا حصے کی طرح ہے وہ منتشر ہوکر متعدد ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ آسیب
زدگی ، ہسٹریا، مرگی، دماغی دورے،اختلاج قلب، ہذیان، سوتے جاگتے بڑبڑانا ، نیند
میں چلنا ،بے انتہا جذباتی ہیجان کے تحت سنگین ارتکابِ جرائم یا خودکشی جیسے تمام
معاملات ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان جذباتی کیفیتوں کے اثرات نہ صرف ذہن پر
شدید پڑتے ہیں بلکہ یہ جسم کو بھی اپنی لپیٹ میں لاکر طرح طرح کی بیماریوں میں
مبتلا کردیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment