جنات اور شیاطین جیسی
نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟
انسان ذات کی تاریخیں، ادب ،روایات وغیرہ
میں جنات، شیاطین، آسیب،دیو، پریوں، سایوں، بدارواح وغیرہ کے ذکر و اذکار سے بھری
پڑی ہیں ۔ دنیابھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں انسانوں کو ہر روز اس قسم کی مخلوقات سے
متعلق معاملا ت و حادثات سے پالا پڑتا رہتا ہے، کبھی کوئی گھر آسیب زدہ ہوجاتا ہے
تو کسی انسان پرجنات اور شیاطین غالب آجاتے ہیں یا کبھی کسی آدم زاد پر دیو اور
پری کا سایہ پڑجاتا ہے ۔ مادہ پرست اور ملحد لوگ فرشتوں اور جنات کے وجود کے قائل
نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیز محسوس نہ ہو اور مشاہد ہ میں نہ آسکے اس کا وجود فرضی
اور غیر عقلی ہے۔ حالانکہ عقلی اعتبار سے بھی جنات اور ملائکہ کا وجود ممکن ہے اس
لئے کہ کسی چیز کا مشاہد یا محسوس ہونا اس کی عدم کو مستلزم نہیں کرتا۔ بجلی ،
روشنی اور مقناطیس کے وجود سے موجودہ مادی دنیا میں کون انکار کر سکتا ہے جن کے
وجود کا علم بھی آثار و علامات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ
ملائکہ اور جنات اگرچہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں لیکن وہ بلاشبہ مستقل
مخلوق ہے ۔ کیا یہ باتیں درست ہیں ، کیا نادیدہ مخلوقات کا واقعی کوئی وجود بھی ہے
یایہ صرف انسانی ذہن کی اختراعات ہیں، ان کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے، سائنس کیا
بتاتی ہے اور ہماری عقل انہیں تسلیم کرتی ہے یا نہیں ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر
بہت کم لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے مگر میں پچھلے دو مہینوں سے اس موضوع پر تحقیق
کرتا رہا ہوں، اس کے سینکڑوں بزرگوں ، جنات کے عاملوں اور اس قسم کی مخلوق سے
واسطہ پڑنے والے افراد کے ساتھ ملا ہوں، اس موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھی ہیں مگر
میرے خیال میں یہ موضوع انتہائی وسیع ہونے کی بنا پر ابھی تک تشنہ اور نامکمل ہے
اور دیکھیں کہا ں تک لے جاتا ہے کیوں کہ جنات سے انٹرویوز لینا کا مرحلہ ابھی باقی
ہے جس پر میں کام کررہا ہوں مگر سر دست اپنے دوست افسر قریشی اور عزیز منگی کے
کہنے پران کے رسالے کے اوراق کو مدِ نظر رکھ کر اپنی معلومات کا نچوڑ آپ تک پہنچا
رہا ہوں۔
مخلوقات کتنی قسم کی ہیں؟
پیدا
کر نے والے نے کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات کو پانچ مختلف قویٰ ، عقل ، وہم،
خیال ، شہوت اور غضب کی ترکیب سے تخلیق کرکے
تمام مخلوقات میں ایک تناسب کے ساتھ بانٹ دیا جن کواجزائے ترکیبی کے حساب یا علمی
لحاظ سے چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ۔
۱۔روحانی مخلوق۔
اس مخلوق جو فرشتے ، ملائک ، ارواح، دیوتا، سروش یا ملکوت بھی کہا جاتا ہے جن کی
عقلی قوت ، وہم و خیال اور شہوت و غضب پر غالب ہوتی ہے اس لئے یہ ہر قسم کے گناہ
اورلغزش کے ساتھ کھانے پینے کی خواہش سے بھی پاک ہوتے ہیں اور اپنی قوت عظیم کی
بدولت ہر قسم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
۲۔ دوسری قسم کی
مخلوق جنات ہیں جنہیں عقل، شہوت ، غضب، وہم و خیال اس درجہ غالب ہوتی ہے کہ وہ
اختیاری عقل و شہوت ، غضب ، قوت اور خیال کی تابع ہوجاتی ہے، اس کا جسم آگ اور ہوا
کا مرکب ہے ۔ اپنے مادہ کی لطافت اور خیال کی قوت سے یہ بھی اپنی مرضی کی صورتیں
بدلنے پر قادر ہوتی ہے۔
۳۔ مخلوق کی تیسری
قسم جسے انسان کہاجاتا ہے کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کی تمام جذبوں
اور قوتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا اور زمین کی وسعتوں پر نائب الہی
مقرر کیا گیا ۔
۴۔ چوتھی قسم کی
مخلوق کے عقل وہم خیال پر شہوت و غضب غالب ہوتی ہے عقل کم ہوتی ہے اس لئے انہیں
حیوان کہا جاتا ہے۔ جن حیوانات پر شہوت غالب ہے ان کانام بہائم ہے اور جن پر غضب
غالب ہے وہ حیوان کہا جاتا ہے۔
ان
مخلوقات کی رہائش کا انتظام ۔
"فرشتوں "کے رہنے کے لئے آسمان میں انتظام
کیا گیا ہے اور ان کا تقرر آسمانوں کے ساتھ تمام عالم پرکیا گیا ہے۔
"جنات" کو
زمین پر آباد کرکے انہیں نباتات، درخت، گھاس ، سونا چاندی ، چرند و پرندکو ان کے
اختیار میں دیاگیا۔ جنات کی ارواح و جسم ملائکہ کی روح سے قریب ہیں اس واسطے ممکن
ہے وہ عالم ملکوت سے بعض غیب کی باتیں معلوم کر سکنے پر قادر ہوں یا ان کی محفلوں
میں شریک ہوتے ہوں۔
"انسان"
کوخلقت
وجود پہنایا اس لئے یہ مرکب ہوکر معجون کے طور پر ظاہر ہوا، اس کو عقل، وہم و خیال
، شہوت ، غضب، اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اوراسے زمین کی خلافت عطا کی۔ ایک روایت ہے
کہ خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر حفاظت کے لئے موکل مقرر کر رکھے ہیں جو نیند اور بیداری
کی حالت میں جنات اور حشرات الارض اور دیگر ستانے والی قوتوں سے اس کی حفاظت کرتے
ہیں اگر یہ فرشتے انسان کی حفاظت کے لئے مامور نہ ہوتے تونادیدہ مخلوقات اس کا
جینا حرام کردیتے۔ یہ محافظ انسان کو کسی بھی فعل کی حالت میں آفات سے بچاتے ہیں۔
اسی تناظر میں مذہب کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ
خالقِ کائنات نے مرنے کے بعد بھی ارواح کے رہنے کی جگہ مقرر کر رکھی ہے جسے برزخ
کہا گیا ہے جس کے بارے میں ایمان ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مرنے والوں کی روحیں
جمع ہوتی جاتی ہیں۔ قرآن شریف میں برزخ کو مرنے سے لے کر قیامت آنے تک ارواح کا
ٹھکانہ بتایا گیا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گی ۔ معنوی لحاظ سے برزخ ایک ایسا پردہ
یا رکاوٹ ہے جس سے انسانی روح اوپر بھیجی جاتی ہے مگروہ دنیا میں واپس نہیں آسکتی
۔ وہیں سے نیکوکاروں کو جنت کے اور گناہ گار وں کو دوزخ کے نظارے کروائے جائیں گے۔
برزخ کے متعلق بعض قصوں اور کتابوں میں قیاسات بھی گھڑے گئے ہیں جن کا مذہبی تعلیم
سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برزخ میںآدمی کی
روح کو کسی تکلیف ،آرام، خوشی یا غمی کا احساس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اسے اپنے وجود
کا بھی احساس نہیں ہوگا مگر یہ باتیں غلط العام ہیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات کی رو
سے برزخ میں انسانی روح نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ بات چیت کرسکنے کے ساتھ دوسروں
کی باتیں بھی سن سکتی ہے کیوں کہ اس کے جذبات و احساسات مارے نہیں جاتے اس لئے وہ
خوشی اور رنج کا احساس کر سکتی ہے لیکن واپس دنیا میں نہیں آسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment