Followers

Thursday, April 29, 2021

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ حصہ دوم

 

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟




حصہ دوئم۔

لفظ جن کا مطلب؟

لغت کی رو سے اہلِ عرب ہر اس چیز کو جن کہتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے نظر نہ آئے ،اس لئے وہ اپنے قصوں اور کہانیوں میں فرشتوں کو بھی جن کہتے ہیں کیوں کہ وہ بھی نظر نہیں آتے ۔ چوں کہ بہشت بھی انسانی نظروں سے پوشیدہ ہے اس لئے اسے جنت کہا جاتا ہے جنت یا مجنوں لفظ بھی جن کے لفظی خاندان میں سے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں مجنوں اس شخص کو کہتے ہیں جس پر جن مسلط ہوجائے ۔ جن لفظ کی اصطلاحی معنی یہ ہے کہ وہ مخلوق جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئی ہو اور مادہ لطافت کے حساب سے ہر شکل بدلنے پر قادر ہو اسے جن کہا جاتا ہے۔


جنات کی پیدائش۔

عجائب القصص میں مفتی عبدالواحد قرآن شریف کی آیت والجان خلقناہ من نارالسموم سے نظریہ مستعار لے کر رقم طراز ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی قدرت سے ایک ایسی آگ پیدا کی جس میں نوربھی تھا اور ظلمت بھی ، اس آگ کے نور سے فرشتے پیدا کئے ، دھوئیں سے دیو جبکہ آگ سے جنات کو تخلیق کیا۔ فرشتے چونکہ نور سے پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ بالطبع اطاعت الٰہی میں مصروف ہوگئے، دیو یا شیاطین نے ظلمت سے جنم لیا اس لئے کفر، ناشکری اور سرکشی میں پڑگئے جبکہ جنات نور و ظلمت کے مرکب سے ترکیب ہوئے اس لئے ان میں سے بعض نیک ہوئے تو بعض بد۔ تاریخ القدس والجلیل میں قاضی مجید الدین حنبلی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ کے قول والجان خلقناہ من نارالسموم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس جان سے ایک عظیم مخلوق پیدا فرمائی جس کا نام مارج رکھا اور اس کے لئے ایک بیوی مرجہ پیدا کی بعد ازاں اسی جوڑے سے جنات کی نسل بڑھی ۔


جنات کا جسم۔

جنات کا جسم انسان کی روح ہوائی سے مشابہ ہوتا ہے ان میں فرق صرف یہ ہے کہ انسانی روح ہوائی عناصراربعہ کا خلاصہ ہے جبکہ جنات کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے فتح العزیز میں تحریر کیا ہے کہ جنات کا ظاہری جسم انسانی روح ہوائی کی طرح لطیف ہے اور چونکہ روح کے ساتھ اختلاط بھی ہے جس سے اصل کی لطافت اور بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے ہی وہ مختلف شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ بات درست مانی جاتی ہے کہ جنات مساموں اور رگوں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوکر تغیرات کا باعث بن سکتے ہیں یاکبھی کوئی کثیف جسم اختیار کرکے اپنی مرضی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔


جنات کی تعداد یا آبادی۔

جنات چو نکہ انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور چوں کہ ان کا عام انسانوں کے مشاہدے میں آنا ممکن نہیں ہے اس لئے نہ ان کی صحیح تعداد کا علم ہو سکتا ہے نہ ہی ان کی قومی حالات تفصیل سے معلوم کئے جا سکنے کے ہمارے پاس دیگر ذرائع موجودہیں سوائے مذہبی کتابوں اور روحانی عاملوں کے۔ بزرگوں اور عالموں کی روایا ت کے انوساریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تعداد انسانوں سے اگر کم نہیں تو زیادہ بھی نہیں ہوگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ایک جن کی بھی پیدائش ہوتی ہے۔


جنات کی قسمیں اور خصوصیات ۔

"جنات کی بے شمار قسمیں بتائی جاتی ہیں، ان میں بھی انسانوں کی طرح بعض بے حد خطرناک ہوتے ہیں ، بعض بے ضرر، بعض قوی ہوتے ہیں توبعض کمزور۔ ان کے کچھ گروہ انسانوں سے میل ملاپ کرنے میں عار نہیں سمجھتے بلکہ اس تعلق کو پسند بھی کرتے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی آبادی انسانوں سے گھل مل جانا پسند نہیں کرتیں "۔


جناب رئیس امروہوی نے جنات نامی اپنی کتاب میں جنات کی دس قسمیں بتائی ہیں۔

 ۱۔ ابلیس ۔

۲۔ شیاطین

۳۔ مروہ

۴۔ عفاریت

۵۔ اعوان

۶۔ غواصون

۷۔ طیارون

۸۔ توابع

۹۔ قرنا اور

۱۰۔عمار۔

 

جنات کی تین اہم خصوصیات یہ ہیں کہ

 ایک تو وہ نظر نہیں آتے۔

دوسری یہ کہ وہ جو شکل و صورت اختیار کرتے ہیں یا جس مخلوق کا روپ دھار یں ان کی آوازبھی اسی مخلوق جیسی ہو جاتی ہے اور

تیسری یہ کہ جب کوئی انسان انہیں کوئی بھی قسم دے تو وہ اس کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

 

اہلِ جنات کی بے شمار قسمیں بتائی جاتی ہیں جن میں بعض انسانوں کی طرح بے حد خطرناک ، بعض بے ضرر، بعض قوی توبعض کمزوربھی ہوتے ہیں۔ ان کے کچھ گروہ انسانوں سے میل ملاپ کرنے میں عار نہیں سمجھتے بلکہ اس تعلق کو پسند بھی کرتے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی آبادی انسانوں سے گھل مل جانے کے خلاف ہوتی ہے ۔

 

 روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت نبوی سے پیشتر اہلِ جنات اور انسانوں کے درمیان شادی بیاہ ہوا کرتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بیان کیا  ہے کہ بی بی بلقیس زوجہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں جنات میں سے تھی۔ فتاوائے سراجیہ میں جنات اور انسانوں کے باہمی نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا وزیر آصف بن برخیا اللہ کے غلاموں میں سے ایک جس نے عفریت کے جواب کے بعد کہا کہ۔ "محفل برخاست ہونے تک تخت آپ یعنی سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردونگا تھا" حضرت کے حکم پر کچھ پڑھ کر پھونکا تو سینکڑوں میل دور بیٹھی ہوئی بی بی بلقیس کا تخت پلک جھپکنے کی دیرحضرت سلیمانعلیہ السلام کی دربار میں پہنچ گیا ۔ اہل علم کا ماننا ہے کہ آصف بن  برخیا اسمِ اعظم کا عامل تھے جس کے پڑھنے سے اللہ رب العزت نے وہ عمل ممکن بنا یا تھا۔

اس سلسلے میں براق کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر اس طرح گیا ہے کہ وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندے (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جن کے گرد ا گرد ہم نے برکتیں کر رکھی ہیں تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔ ایک حدیث میں اس سواری کے جانور کو ایک گھوڑا بیان کیا گیا ہے لیکن بیشتر حدیثو ں میں اسے براق یا ابراق کہہ کر اس کا حلیہ خچر اور گدھے کی درمیانی جسامت کا جانور بتایا گیا ہے جس کے کان لمبے، خوبصورت زین اور لگام سجی ہوئی تھی۔ جس کا رنگ سفید ، جسم پر حیران کردینے والی چمک اور رفتار بہت تیز تھی۔ اس جانور کا ہر قدم حدِ نظر تک فاصلہ طے کرتا تھا جبکہ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کی پنڈلیوں کے ساتھ پر لگے ہوئے تھے ۔ الہامی کتابوں میں اس سے پہلے بھی براق سے ملتی جلتی سواریوں کا ذکر نبیوں کی زندگیوں میں ملتا ہے۔ مصوروں نے براق کی ایسی بھی تصویریں بنائیں جن میں براق کا چہرہ عورت کا باقی جسم گھوڑے کا دکھا یا گیا ہے جس کی کمر کے دونوں طرف بڑے بڑے پر تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ براق اصل میں کونسی مخلوق تھی ، وہ کوئی فرشتہ تھا یاکوئی دوسری مخلوق یا پھر وہ بھی اہل جنات میں سے تھا۔ کیوں کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس پر سوار ہونے لگے تو پہلے اس نے بھی شیطان کی طرح منہ زوری دکھاکر سرکشی سے دم ہلائی تھی جس پر حضرت جبرائیلعلیہ السلام نے جو براق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سواری کے لئے لائے تھے اس کی سرزنش کی کہ اے براق خدا کی قسم ایسا عظیم الشان انسان تجھ پر کبھی سوار نہیں ہواہوگا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس براق پر پہلے بھی سواریاں ہوتی رہی ہوں گی ۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ وہ کس قسم کی مخلوق تھا جسے آسمانوں پراس جگہ جانے کی اجازت تھی جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام جیسا فرشتہ بھی نہیں جا سکتا تھا، کیا وہ بھی عزازیل کی طرح کوئی خدا کا برگزیدہ جن تھا۔


جنات کا مذہب و عقائد۔

جنات مذاہب کے لحاظ سے انسانوں کی طرح ہیں، وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں، ہندو، عیسائی، لادین، ڈیڈھ، یہودی بھی، ان میں قدریہ بھی ہیں، مرجیہ بھی ، رافضی بھی ہیں، تفضیلیہ بھی ، مجوسی بھی توستارہ پرست بھی۔ انسانوں کی طرح ہی جنات عقائد کے لحاظ سے مختلف گروہوں اور قوموں میں تقسیم ہوتے ہیں ۔

برے جنات کے فرقوں کے متعلق تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ برےجنات کے چار فرقے ہیں جن میں سے

 پہلافرقہ ان کافر جنات کاہوتا ہے جو اپنے کفر کو پوشیدہ نہیں رکھتے اور بنی آدم کو جہاں تک ممکن ہوتا ہے بہکاتے ہیں یہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ان سے غیب کی خبریں پوچھی جائیں اور مصیبت کے وقت ان سے مدد مانگی جائے یہ لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ ہم تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے۔ یہ انسانوں میں شرک پھیلاتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرنے سے انہیں روکتے ہیں ، یہ کافروں کی بھی حتی المقدور مدد اور اعانت کرتے ہیں ۔

دوسرا فرقہ ان منافق جنات کا ہے جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں مگر دلی طورپر اپنے مکر و فریب سے انسانوں کی خرابی کے درپے رہتے ہیں ایسے خباث اپنے آپ کو بزرگوں کے نام سے مشہور کرکے لوگوں سے اپنی تکریم کراتے ہیں۔

تیسرا فرقہ ایسے فاسق جنات کا ہے جو انسانوں کو طرح طرح سے ستاتے ہیں ایسے جنات اپنے واسطے نذر ونیاز، مٹھائی ، پانی شربت وغیرہ سب کچھ قبول کرلیتے ہیں۔

چوتھا فرقہ ایسے چوردل جنات کا ہوتا ہے جو بعض انسانوں کی روح کو بد خلقی، غرور، کینہ یا حسد اور نجاست میں مبتلا کرکے آلودگی کی طرف کھنچ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ ڈالتے ہیں۔


کیا جنات کو اپنی اصل صورت و شکل میں دیکھنا ممکن ہے؟

امام شافعی کے نزدیک اس شخص کی شہادت مردود ہے جو یہ کہتا ہے کہ

"میں نے جن کو اس کی اصل شکل و صورت میں دیکھا ہے"

یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں آکر دکھائی دے سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات کو انکی اپنی اصلی صور ت میں دیکھنا ممکن نہیں اس لئے کہ ان کا جسم لطیف ہوتا ہے کثیف جسم کی آنکھوں سے لطیف چیز دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر میں سینکڑوں ایسے انسانوں سے ملا ہوں جنہوں نے جنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جن کے مجموعی بیان ہیں کہ وہ قد میں تین فٹ سے زیادہ کے نظر نہیں آتے گھومنے پھرنے میں انسان کے پانچ سات سالہ بچوں کی طرح نظر آتے ہیں میری نظر میں صرف ایک بزرگ جن ایسا آیا جو قد کاٹھ میں مکمل انسانوں کی طرح تھا ورنہ سارے کے سارے بمشکل چھ سالہ بچوں کے قد کے ہوتےہیں اور ان کے جسموں پر بھورے رنگ کے بال بھی ہوتے ہیں۔

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ حصہ اول

 

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟



انسان ذات کی تاریخیں، ادب ،روایات وغیرہ میں جنات، شیاطین، آسیب،دیو، پریوں، سایوں، بدارواح وغیرہ کے ذکر و اذکار سے بھری پڑی ہیں ۔ دنیابھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں انسانوں کو ہر روز اس قسم کی مخلوقات سے متعلق معاملا ت و حادثات سے پالا پڑتا رہتا ہے، کبھی کوئی گھر آسیب زدہ ہوجاتا ہے تو کسی انسان پرجنات اور شیاطین غالب آجاتے ہیں یا کبھی کسی آدم زاد پر دیو اور پری کا سایہ پڑجاتا ہے ۔ مادہ پرست اور ملحد لوگ فرشتوں اور جنات کے وجود کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیز محسوس نہ ہو اور مشاہد ہ میں نہ آسکے اس کا وجود فرضی اور غیر عقلی ہے۔ حالانکہ عقلی اعتبار سے بھی جنات اور ملائکہ کا وجود ممکن ہے اس لئے کہ کسی چیز کا مشاہد یا محسوس ہونا اس کی عدم کو مستلزم نہیں کرتا۔ بجلی ، روشنی اور مقناطیس کے وجود سے موجودہ مادی دنیا میں کون انکار کر سکتا ہے جن کے وجود کا علم بھی آثار و علامات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ملائکہ اور جنات اگرچہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں لیکن وہ بلاشبہ مستقل مخلوق ہے ۔ کیا یہ باتیں درست ہیں ، کیا نادیدہ مخلوقات کا واقعی کوئی وجود بھی ہے یایہ صرف انسانی ذہن کی اختراعات ہیں، ان کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے، سائنس کیا بتاتی ہے اور ہماری عقل انہیں تسلیم کرتی ہے یا نہیں ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت کم لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے مگر میں پچھلے دو مہینوں سے اس موضوع پر تحقیق کرتا رہا ہوں، اس کے سینکڑوں بزرگوں ، جنات کے عاملوں اور اس قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑنے والے افراد کے ساتھ ملا ہوں، اس موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھی ہیں مگر میرے خیال میں یہ موضوع انتہائی وسیع ہونے کی بنا پر ابھی تک تشنہ اور نامکمل ہے اور دیکھیں کہا ں تک لے جاتا ہے کیوں کہ جنات سے انٹرویوز لینا کا مرحلہ ابھی باقی ہے جس پر میں کام کررہا ہوں مگر سر دست اپنے دوست افسر قریشی اور عزیز منگی کے کہنے پران کے رسالے کے اوراق کو مدِ نظر رکھ کر اپنی معلومات کا نچوڑ آپ تک پہنچا رہا ہوں۔

مخلوقات کتنی قسم کی ہیں؟

پیدا کر نے والے نے کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات کو پانچ مختلف قویٰ ، عقل ، وہم، خیال ، شہوت اور غضب کی ترکیب سے تخلیق کرکے تمام مخلوقات میں ایک تناسب کے ساتھ بانٹ دیا جن کواجزائے ترکیبی کے حساب یا علمی لحاظ سے چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ۔


۱۔روحانی مخلوق۔ اس مخلوق جو فرشتے ، ملائک ، ارواح، دیوتا، سروش یا ملکوت بھی کہا جاتا ہے جن کی عقلی قوت ، وہم و خیال اور شہوت و غضب پر غالب ہوتی ہے اس لئے یہ ہر قسم کے گناہ اورلغزش کے ساتھ کھانے پینے کی خواہش سے بھی پاک ہوتے ہیں اور اپنی قوت عظیم کی بدولت ہر قسم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔


۲۔ دوسری قسم کی مخلوق جنات ہیں جنہیں عقل، شہوت ، غضب، وہم و خیال اس درجہ غالب ہوتی ہے کہ وہ اختیاری عقل و شہوت ، غضب ، قوت اور خیال کی تابع ہوجاتی ہے، اس کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے ۔ اپنے مادہ کی لطافت اور خیال کی قوت سے یہ بھی اپنی مرضی کی صورتیں بدلنے پر قادر ہوتی ہے۔


۳۔ مخلوق کی تیسری قسم جسے انسان کہاجاتا ہے کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کی تمام جذبوں اور قوتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا اور زمین کی وسعتوں پر نائب الہی مقرر کیا گیا ۔


۴۔ چوتھی قسم کی مخلوق کے عقل وہم خیال پر شہوت و غضب غالب ہوتی ہے عقل کم ہوتی ہے اس لئے انہیں حیوان کہا جاتا ہے۔ جن حیوانات پر شہوت غالب ہے ان کانام بہائم ہے اور جن پر غضب غالب ہے وہ حیوان کہا جاتا ہے۔
ان مخلوقات کی رہائش کا انتظام ۔


"فرشتوں "کے رہنے کے لئے آسمان میں انتظام کیا گیا ہے اور ان کا تقرر آسمانوں کے ساتھ تمام عالم پرکیا گیا ہے۔

"جنات" کو زمین پر آباد کرکے انہیں نباتات، درخت، گھاس ، سونا چاندی ، چرند و پرندکو ان کے اختیار میں دیاگیا۔ جنات کی ارواح و جسم ملائکہ کی روح سے قریب ہیں اس واسطے ممکن ہے وہ عالم ملکوت سے بعض غیب کی باتیں معلوم کر سکنے پر قادر ہوں یا ان کی محفلوں میں شریک ہوتے ہوں۔

"انسان" کوخلقت وجود پہنایا اس لئے یہ مرکب ہوکر معجون کے طور پر ظاہر ہوا، اس کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اوراسے زمین کی خلافت عطا کی۔ ایک روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر حفاظت کے لئے موکل مقرر کر رکھے ہیں جو نیند اور بیداری کی حالت میں جنات اور حشرات الارض اور دیگر ستانے والی قوتوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اگر یہ فرشتے انسان کی حفاظت کے لئے مامور نہ ہوتے تونادیدہ مخلوقات اس کا جینا حرام کردیتے۔ یہ محافظ انسان کو کسی بھی فعل کی حالت میں آفات سے بچاتے ہیں۔


اسی تناظر میں مذہب کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ خالقِ کائنات نے مرنے کے بعد بھی ارواح کے رہنے کی جگہ مقرر کر رکھی ہے جسے برزخ کہا گیا ہے جس کے بارے میں ایمان ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مرنے والوں کی روحیں جمع ہوتی جاتی ہیں۔ قرآن شریف میں برزخ کو مرنے سے لے کر قیامت آنے تک ارواح کا ٹھکانہ بتایا گیا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گی ۔ معنوی لحاظ سے برزخ ایک ایسا پردہ یا رکاوٹ ہے جس سے انسانی روح اوپر بھیجی جاتی ہے مگروہ دنیا میں واپس نہیں آسکتی ۔ وہیں سے نیکوکاروں کو جنت کے اور گناہ گار وں کو دوزخ کے نظارے کروائے جائیں گے۔ برزخ کے متعلق بعض قصوں اور کتابوں میں قیاسات بھی گھڑے گئے ہیں جن کا مذہبی تعلیم سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برزخ میںآدمی کی روح کو کسی تکلیف ،آرام، خوشی یا غمی کا احساس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اسے اپنے وجود کا بھی احساس نہیں ہوگا مگر یہ باتیں غلط العام ہیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے برزخ میں انسانی روح نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ بات چیت کرسکنے کے ساتھ دوسروں کی باتیں بھی سن سکتی ہے کیوں کہ اس کے جذبات و احساسات مارے نہیں جاتے اس لئے وہ خوشی اور رنج کا احساس کر سکتی ہے لیکن واپس دنیا میں نہیں آسکتی ہے۔

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ حصہ اول

  جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ انسان ذات کی تاریخیں، ادب ،روایات وغیرہ میں...