Followers

Thursday, July 20, 2017

جن




جن





لغوی معنی ۔ چھپی ہوئی مخلوق ۔ فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی نظر سے پوشیدہ یا  اوجھل ہونے والی شئے کے ہیں۔ اس لفظ کا اصل ماخذ عربی زبان کا لفظ  جَنّ / جُنّ اہے جسکے معنی چھپے ہونے یا پوشیدہ ہونے کے ہیں۔  اسی کے ساتھ انہی الفاظ سے ماخوذ  دوسرے الفاظ جیسے مجنون (جسکی ذہانت چھپی ہوئی ہو) جنون (کسی شئے کے خبط کا چھپا ہونا)  اور؟ جنین( مادر رحم میں پوشیدہ  بچہ) بھی ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق ایسی نظر نہ آنے والی مخلوق جس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ جب کہ انسان اور ملائکہ مٹی اور نور سے بنائے گئے ہیں۔ جنوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے روپ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جنات کا ذکر آیا ہے ۔ قرآن کی ایک سورۃ جن بھی ہے جس کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے کہ جنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا اور اسے عجیب و غریب پایا تو اپنے ساتھیوں کو بتایا اور وہ مسلمان ہوگئے۔

 

ابلیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا۔ چنانچہ جب اسے خضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم مٹی سے ۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ابلیس ناری ہے ۔ مگر عبادت و ریاضت سے بلند مقام پر پہنچ گیا تھا۔ اور فرشتوں میں شمار ہونے لگا تھا۔

 

اسلام سے پہلے بھی عربوں میں جنوں کے تذکرے موجود تھے۔ اس زمانے میں سفر کرتے وقت جب رات آ جاتی تھی تو مسافر اپنے علاقے کے جنوں کے سردار کے سپرد کرکے سو جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق سے قبل دنیا میں جن آباد تھے ۔ جن کی آگ سے تخلیق ہوئی تھی اور انھوں نے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کر رکھا تھا ۔ قرآن میں حضرت سلیمان کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان کی حکومت جنوں پر بھی تھی۔ حضرت سلیمان نے جو عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں۔ وہ جنوں نے ہی بنائی تھیں۔

 

 

فہرست

مزید

جنوں کی اصلیت

جنوں کی اقسام

جن اور اولادِ آدم

جنات کی طاقت وقدرت

جنوں کا کھانا پینا

جنوں کے جانور

جنوں کی رھائش

جنوں کی اذیت سے بچاؤ

 

مزید

کتاب و سنت کی نصوص جنوں کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور ان کو اس زندگی میں وجود دینے کا مقصد اور غرض و غایت اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے ۔ فرمان باری تعالٰی ہے:

 

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں" الذاریات: 56

 

اور اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

"اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمھارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آۓ تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے" الانعام :130

اور جنوں کی مخلوق ایک مستقل اور علیحدہ ہے جس کی اپنی ایک طبیعت ہے جس سےوہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کی وہ صفات ہیں جو کہ انسانوں پر مخفی ہیں تو ان میں اور انسانوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ عقل اور قوت مدرکہ اور خیر اور شر کو اختیار کرنے میں ان دونوں کی صفات ایک ہیں اور جن کو جن چھپنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی کہ وہ آنکھوں سے چھپے ہوئے ہیں۔

 

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

 

" بےشک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے " الاعراف 27۔

 

جنوں کی اصلیت

 

اللہ تعالٰی نے اپنی عزت والی کتاب میں جنوں کی اصلی خلقت کے متعلق بتاتے ہو‏ئے فرماتے ہے-

       "اور اس سے پہلے ہم نےجنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا " الحجر \ 65

اور ارشاد باری تعالٰی ہے :

"اور جنات کو آگ کےشعلے سے پیدا کیا " الرحمن 15

اور عائشۃ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث میں مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  :

( فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم ( علیہ السلام ) کی پیدائش کا وصف تمہیں بیان کیا گیا ہے ۔ ) اسے مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے ۔ ( 5314 )

جنوں کی اقسام

 

اللہ تعالٰی نے جنوں کی مختلف اقسام پیدا فرمائی ہیں جو کہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں مثلا

  • کتے سانپ۔
  • اور کچھ وہ ہیں جو پروں والے ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہیں ۔
  • اور کچھ وہ ہیں جو آباد ہونے والے ہیں اور کوچ کرنے والے ہیں ۔

ابو ثعلبہ خشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

جنوں کی تین قسمیں ہیں (1)  ایک قسم کے پر ہیں اور ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ اور (2) ایک قسم سانپ اور کتے ہیں اور (3) ایک قسم آباد ہونے والے اور کوچ کرنے والے ہیں۔ “

جن اور آدم کی اولاد

اولاد آدم کے ہر فرد کے ساتھ اس کا جنوں میں سے ایک ہم نشین ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے ۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ ؟ تو انہوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہی کہتا ۔ )

اسے مسلم نے ( 2814) روایت کیا ہے ۔ اور امام نووی نے شرح مسلم (17\ 175) میں اس کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاسلم : یعنی وہ مومن ہو گیا ہے اور یہ ظاہر ہے ۔

قاضی کا کہنا ہے کہ جان لو کہ امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی بچائے گئے ہیں تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تحذیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں ۔1۔ھ

انکی طاقت اور قدرت

اللہ تعالٰی نے جنوں کو وہ قدرت دی ہے جو کہ انسان کو نہیں دی۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے لئے ان کی بعض قدرات بیان کی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔

- انتقال اور حرکت کے اعتبار سے سریع ہیں ۔ اللہ تعالٰی کے نبی سلیمان علیہ السلام سے ایک سخت اور چالاک جن نے یمن کی ملکہ کا تخت بیت المقدس میں اتنی مدت میں لانے کا وعدہ کیا کہ ایک آدمی مجلس سے نہ اٹھا ہو ۔

- ارشاد باری تعالٰی ہے ۔

"ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپکے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کےپاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے " النمل 39 – 40

جنوں کا کھانا اور پینا

جنات کھاتے پیتے ہیں :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ( میرے پاس جنوں کا داعی آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور ان پر قرآن پڑھا فرمایا کہ وہ ہمیں لے کر گیا اور اپنے آثار اور اپنی آگ کے آثار دکھائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زاد راہ ( کھانے ) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ آئے گی تو وہ گوشت ہوگی اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ ہے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے بھائیوں کا کھانا ہے ) اسے مسلم نے ( 450) روایت کیا ہے ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ ( بیشک میرے پاس نصیبی جنوں کا ایک وفد آیا اور وہ جن بہت اچھے تھے تو انہوں نے مجھے کھانے کے متعلق پوچھا تو میں نے اللہ تعالٰی سے ان کے لئے دعا کی کہ وہ کسی ہڈی اور لید کے پاس سے گذریں تو وہ اسے اپنا کھانا پائیں ) اسے بخاری نے ( 3571) روایت کیا ہے ۔

تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لئے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لئے ہے ۔

جنوں کے جانور

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث میں ہے کہ جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کا چارہ ہے۔

جنوں کی رھائش

جس زمین پرہم زندگی گزار رہے ہیں اسی پر وہ بھی رہتے ہیں اور انکی رھائش اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ تو اسی لئے نبی صلی للہ علیہ وسلم نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وفت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں ۔

انہی میں سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے

{ اللهم اٍني اعوذبک من الخبث والخبائث }

(اے اللہ میں خبیثوں اور خبثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں )

اسے بخاری نے (142)اور مسلم نے ( 375) روایت کیا ہے ۔

خطابی کا قول ہے کہ الخبث یہ خبیث کی جماعت ہے اور الخبائث یہ خبیثہ کی جمع ہے اور اس سے مراد شیطانوں میں سے مذکور اور مؤنث ہیں جنوں میں مومن بھی اور کافر بھی ہیں :

جنوں کے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ " ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرمانبردار ہو گئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے الجن 14۔ 15

بلکہ ان میں سے مسلمان اطاعت اور اصلاح کے اعتبار سے مختلف ہیں سورہ الجن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے

" اور یہ کہ بیشک بعض تو ہم میں سے نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں الجن"

اور اس امت کے پہلے جنوں کا اسلام لانے کا قصہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ سوق عکاز جانے کے ارادہ سے چلے اور شیطان اور آسمان کی خبروں کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور ان پر شہاب ثاقب مارے جانے لگے تو شیطان اپنی قوم میں واپس آئے تو انہیں پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل کر دی گئی ہے اور ہمیں شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں تو قوم کہنے لگی تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حا‏ئل ہونے کا کوئی سبب کوئی حادثہ ہے جو کہ ہوا ہے تو زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو کہ تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان ہوئی ہے ۔

تووہ جن تہامہ کی طرف گئے تھے وہ سوق عکاز ( عکاز بازار ) جانے کی غرض سے نخلہ نامی جگہ پر اپنے صحابہ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو جب جنوں نے قرآن سنا تو اس پر کان لگا لئے اور اسے غور سے سننے لگے تو کہنے لگے اللہ کی قسم یہی ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوا ہے تو وہیں سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے اور انہیں کہنے لگے اے ہماری قوم ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم ایمان لا چکے ( اب ) ہم ہر گز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے تو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی :

" کہہ دو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا "

 تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنوں کا قول ہی وحی کیا گیا ۔اسے بخاری نے ( 731) روایت کیا ہے ۔

قیامت کے دن ان کا حساب و کتاب : قیامت کے دن جنوں کا حساب و کتاب بھی ہوگا ۔ مجاھد رحمہ اللہ علیہ نے اللہ تعالٰی کے اس فرمان کے متعلق کہا ہے کہ "اور یقینا جنوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پیش کئے جائیں گے"۔

جنوں کی اذیت سے بچاؤ

جبکہ جن ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے تو اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی اذیت سے بچنے کے لئے بہت سے طریقے سکھائے ہیں مثلا شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی پناہ میں آنا اور سورہ الفلق اور الناس پڑھنا ۔

اور قرآن میں شیطان سے پناہ کے متعلق آیا ہے۔

وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ (97) وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ (98)

"اور دعا کریں اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں۔" [المؤمنون/۹۷-۹۸]

اور اسی طرح گھر میں داخل ہونے سے اور کھانا کھانے سے اور پانی پینے سے اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھنا شیطانوں کو گھر میں رات گزارنے اور کھانے پینے اور جماع میں شرکت سے روک دیتا ہے اور اسی طرح بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور لباس اتارنے سے قبل جن کو انسان کی شرمگاہ اور اسے تکلیف دینے سے منع کردیتا ۔

جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

"جب انسان بیت الخلا جاتاہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا ۔"

اور قوت ایمان اور قوت دین بھی شیطان کی اذیت سے رکاوٹ ہیں بلکہ اگر وہ معرکہ کریں تو صاحب ایمان کامیاب ہو گا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سےایک آدمی جن سے ملا اور اس سے مقابلہ کیا تو انسان نے جن کو بچھاڑ دیا تو انسان کہنے لگا کیا بات ہے میں تجھے دبلا پتلا اور کمزور دیکھ رہا ہوں اور یہ تیرے دونوں بازو ایسے ہیں جیسے کتے کے ہوں کیا سب جن اسی طرح کے ہوتے ہیں یا ان میں سے تو ہی ایسا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں اللہ کی قسم میں تو ان میں سے کچھ اچھی پسلی والا ہوں لیکن میرے ساتھ دوبارہ مقابلہ کر اگر تو تو نے مجھے بچھاڑ دیا تو میں تجھے ایک نفع مند چیز سکھاؤں گا تو کہنے لگا ٹھیک ہے کہ تو آیۃ الکرسی {اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ۔۔۔۔۔۔۔۔} پڑھا کر تو جس گھر میں بھی پڑھے گا وہاں سے شیطان اس طرح نکلے گا کہ گدھے کی طرح اس کی ہوا خارج ہو گی تو پھر وہ صبح تک اس گھر میں نہیں آئے گا ۔

ابو محمد کہتے ہیں کہ الضئیل نحیف کو اور الشحیت کمزور اور الضلیع جس کی پسلی ٹھیک ہو اور الخجج ہوا کو کہتے ہیں ۔

تو جنوں اور انکی خلقت اور طبیعت کے متعلق مختصر سا بیان تھا اور اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب ( الجن والشیاطین ) تالیف : عمر واللہ اعلم . جنات سے جائز کام لیا جا سکتا ہے۔ شریعت میں ان سے جائز کام کروانے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ شریعت کے خلاف کام لینا حرام ہے۔ دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنا، کسی کے مال کو غصب کرنا، کسی کو تنگ کرنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ایسے کاموں میں جنات سے مدد لینا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے۔

Wednesday, July 19, 2017

جنّات اور شیاطین کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟


جنّات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟




انسانی کی تاریخ، ادب اور روایات وغیرہ میں جنات، شیاطین، آسیب،دیو، پریوں، سایوں، بدروحوں وغیرہ کے ذکر و اذکار سے بھری پڑی ہیں ۔ دنیابھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں انسانوں کو ہر روز اس قسم کی مخلوقات سے متعلق معاملا ت و حادثات سے پالا پڑتا رہتا ہے، کبھی کوئی گھر آسیب زدہ ہوجاتا ہے تو کسی انسان پرجنات اور شیاطین غالب آجاتے ہیں یا کبھی کسی آدم زاد پر دیو اور پری کا سایہ پڑجاتا ہے ۔ مادہ پرست اور ملحد لوگ فرشتوں اور جنات کے وجود کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو چیز محسوس نہ ہو اور مشاہد ہ میں نہ آسکے اس کا وجود فرضی اور غیر عقلی ہے۔ حالانکہ عقلی اعتبار سے بھی جنات اور ملائکہ کا وجود ممکن ہے اس لئے کہ کسی چیز کا مشاہد یا محسوس ہونا اس کی عدم کو مستلزم نہیں کرتا۔ بجلی ، روشنی اور مقناطیس کے وجود سے موجودہ مادی دنیا میں کون انکار کر سکتا ہے جن کے وجود کا علم بھی آثار و علامات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ملائکہ اور جنات اگرچہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں لیکن وہ بلاشبہ مستقل مخلوق ہے ۔ کیا یہ باتیں درست ہیں ، کیا نادیدہ مخلوقات کا واقعی کوئی وجود بھی ہے یایہ صرف انسانی ذہن کی اختراعات ہیں، ان کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے، سائنس کیا بتاتی ہے اور ہماری عقل انہیں تسلیم کرتی ہے یا نہیں ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت کم لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے مگر میں پچھلے دو مہینوں سے اس موضوع پر تحقیق کرتا رہا ہوں، اس کے سینکڑوں بزرگوں ، جنات کے عاملوں اور اس قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑنے والے افراد کے ساتھ ملا ہوں، اس موضوع پر بے شمار کتابیں پڑھی ہیں مگر میرے خیال میں یہ موضوع انتہائی وسیع ہونے کی بنا پر ابھی تک تشنہ اور نامکمل ہے اور دیکھیں کہا ں تک لے جاتا ہے کیوں کہ جنات سے انٹرویوز لینا کا مرحلہ ابھی باقی ہے جس پر میں کام کررہا ہوں مگر سر دست اپنے دوست افسر قریشی اور عزیز منگی کے کہنے پران کے رسالے کے اوراق کو مدِ نظر رکھ کر اپنی معلومات کا نچوڑ آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
پیدا کر نے والے نے کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات کو پانچ مختلف قویٰ ، عقل ، وہم، خیال ، شہوت اور غضب کی ترکیب سے تخلیق کرکے تمام مخلوقات میں ایک تناسب کے ساتھ بانٹ دیا ۔
جن کواجزائے ترکیبی کے حساب یا علمی لحاظ سے چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ۔
۱۔روحانی مخلوق۔ اس مخلوق جو فرشتے ، ملائک ، ارواح، دیوتا، سروش یا ملکوت بھی کہا جاتا ہے جن کی عقلی قوت ، وہم و خیال اور شہوت و غضب پر غالب ہوتی ہے اس لئے یہ ہر قسم کے گناہ اورلغزش کے ساتھ کھانے پینے کی خواہش سے بھی پاک ہوتے ہیں اور اپنی قوت عظیم کی بدولت ہر قسم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
۲۔ دوسری قسم کی مخلوق جنات ہیں جنہیں عقل، شہوت ، غضب، وہم و خیال اس درجہ غالب ہوتی ہے کہ وہ اختیاری عقل و شہوت ، غضب ، قوت اور خیال کی تابع ہوجاتی ہے، اس کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے ۔ اپنے مادہ کی لطافت اور خیال کی قوت سے یہ بھی اپنی مرضی کی صورتیں بدلنے پر قادر ہوتی ہے۔
۳۔ مخلوق کی تیسری قسم جسے انسان کہاجاتا ہے کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کی تمام جذبوں اور قوتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا اور زمین کی وسعتوں پر حاکم مقرر کیا گیا ۔
۴۔ تیسری قسم کی مخلوق کے عقل وہم خیال پر شہوت و غضب غالب ہوتی ہے عقل کم ہوتی ہے اس لئے انہیں حیوان کہا جاتا ہے ۔ جن حیوانات پر شہوت غالب ہے ان کانام بہائم ہے اور جن پر غضب غالب ہے وہ حیوان کہا جاتا ہے۔
ان مخلوقات کی رہائش کا انتظام ۔
فرشتوں یا دیوتاؤں کے رہنے کے لئے آسمان میں انتظام کیا گیا ہے اور ان کا تقرر آسمانوں کے ساتھ تمام عالم پرکیا گیا ہے۔ جنات کو زمین پر آباد کرکے انہیں نباتات، درخت، گھاس ، سونا چاندی ، چرند و پرندکو ان کے اختیار میں دیاگیا۔ جنات کے ارواح و جسم ملائکہ کی روح سے قریب ہیں اس واسطے ممکن ہے وہ عالم ملکوت سے بعض غیب کی باتیں معلوم کر سکنے پر قادر ہوں یا ان کی محفلوں میں شریک ہوتے ہوں۔ انسان کوخلقت وجود پہنایا اس لئے یہ مرکب ہوکر معجون کے طور پر ظاہر ہوا، اس کو عقل، وہم و خیال ، شہوت ، غضب، اعتدال کے ساتھ پیدا کیا اوراسے زمین کی خلافت عطا کی۔ ایک روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر انسان پر حفاظت کے لئے موکل مقرر کر رکھے ہیں جو نیند اور بیداری کی حالت میں جنات اور حشرات الارض اور دیگر ستانے والی قوتوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اگر یہ فرشتے انسان کی حفاظت کے لئے مامور نہ ہوتے تونادیدہ مخلوقات اس کا جینا حرام کردیتے۔ یہ محافظ انسان کو کسی بھی فعل کی حالت میں آفات سے بچاتے ہیں۔
اسی تناظر میں مذہب کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ خالقِ کائنات نے مرنے کے بعد بھی ارواح کے رہنے کی جگہ مقرر کر رکھی ہے جسے برزخ کہا گیا ہے جس کے بارے میں ایمان ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مرنے والوں کی روحیں جمع ہوتی جاتی ہیں۔ قرآن شریف میں برزخ کو مرنے سے لے کر قیامت آنے تک ارواح کا ٹھکانہ بتایا گیا ہے جہاں وہ قیامت تک رہیں گی ۔ معنوی لحاظ سے برزخ ایک ایسا پردہ یا رکاوٹ ہے جس سے انسانی روح اوپر بھیجی جاتی ہے مگروہ دنیا میں واپس نہیں آسکتی ۔ وہیں سے نیکوکاروں کو جنت کے اور گناہ گار وں کو دوزخ کے نظارے کروائے جائیں گے۔ برزخ کے متعلق بعض قصوں اور کتابوں میں قیاسات بھی گھڑے گئے ہیں جن کا مذہبی تعلیم سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برزخ میںآدمی کی روح کو کسی تکلیف ،آرام، خوشی یا غمی کا احساس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اسے اپنے وجود کا بھی احساس نہیں ہوگا مگر یہ باتیں غلط العام ہیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے برزخ میں انسانی روح نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ بات چیت کرسکنے کے ساتھ دوسروں کی باتیں بھی سن سکتی ہے کیوں کہ اس کے جذبات و احساسات مارے نہیں جاتے اس لئے وہ خوشی اور رنج کا احساس کر سکتی ہے لیکن واپس دنیا میں نہیں آسکتی ہے۔
لفظ جن کا مطلب۔
لغت کی رو سے اہلِ عرب ہر اس چیز کو جن کہتے ہیں جو کھلی آنکھوں سے نظر نہ آئے ،اس لئے وہ اپنے قصوں اور کہانیوں میں فرشتوں کو بھی جن کہتے ہیں کیوں کہ وہ بھی نظر نہیں آتے ۔ چوں کہ بہشت بھی انسانی نظروں سے پوشیدہ ہے اس لئے اسے جنت کہا جاتا ہے جنت یا مجنوں لفظ بھی جن کے لفظی خاندان میں سے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں مجنوں اس شخص کو کہتے ہیں جس پر جن مسلط ہوجائے ۔ جن لفظ کی اصطلاحی معنی یہ ہے کہ وہ مخلوق جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئی ہو اور مادہ لطافت کے حساب سے ہر شکل بدلنے پر قادر ہو اسے جن کہا جاتا ہے۔
جنات کی پیدائش۔
عجائب القصص میں مفتی عبدالواحد قرآن شریف کی آیت والجان خلقناہ من نارالسموم سے نظریہ مستعار لے کر رقم طراز ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے اپنی قدرت سے ایک ایسی آگ پیدا کی جس میں نوربھی تھا اور ظلمت بھی ، اس آگ کے نور سے فرشتے پیدا کئے ، دھوئیں سے دیو جبکہ آگ سے جنات کو تخلیق کیا۔ فرشتے چونکہ نور سے پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ بالطبع اطاعت الٰہی میں مصروف ہوگئے، دیو یا شیاطین نے ظلمت سے جنم لیا اس لئے کفر، ناشکری اور سرکشی میں پڑگئے جبکہ جنات نور و ظلمت کے مرکب سے ترکیب ہوئے اس لئے ان میں سے بعض نیک ہوئے تو بعض بد۔ تاریخ القدس والجلیل میں قاضی مجید الدین حنبلی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ کے قول والجان خلقناہ من نارالسموم کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس جان سے ایک عظیم مخلوق پیدا فرمائی جس کا نام مارج رکھا اور اس کے لئے ایک بیوی مرجہ پیدا کی بعد ازاں اسی جوڑے سے جنات کی نسل بڑھی ۔
جنات کا جسم۔
جنات کا جسم انسان کی روح ہوائی سے مشابہ ہوتا ہے ان میں فرق صرف یہ ہے کہ انسانی روح ہوائی عناصراربعہ کا خلاصہ ہے جبکہ جنات کا جسم آگ اور ہوا کا مرکب ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے فتح العزیز میں تحریر کیا ہے کہ جنات کا ظاہری جسم انسانی روح ہوائی کی طرح لطیف ہے اور چوں کہ روح کے ساتھ اختلاط بھی ہے جس سے اصل کی لطافت اور بھی بڑھ جاتی ہے اس لئے ہی وہ مختلف شکلیں اختیار کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ یہ بات درست مانی جاتی ہے کہ جنات مساموں اور رگوں کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوکر تغیرات کا باعث بن سکتے ہیںیاکبھی کوئی کثیف جسم اختیار کرکے اپنی مرضی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
جنات کی تعداد یا آبادی۔
جنات چوں کہ انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور چوں کہ ان کا عام انسانوں کے مشاہدے میں آنا ممکن نہیں ہے اس لئے نہ ان کی صحیح تعداد کا علم ہو سکتا ہے نہ ہی ان کی قومی حالات تفصیل سے معلوم کئے جا سکنے کے ہمارے پاس دیگر ذرائع موجودہیں سوائے مذہبی کتابوں اور روحانی عاملوں کے۔ بزرگوں اور عالموں کی روایا ت کے انوساریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تعداد انسانوں سے اگر کم نہیں تو زیادہ بھی نہیں ہوگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ایک جن کی بھی پیدائش ہوتی ہے۔
جنات کی قسمیں اور خصوصیات۔
جناب رئیس امروہوی نے جنات نامی اپنی کتاب میں جنات کی دس قسمیں بتائی ہیں۔
 ۱۔ ابلیس ، ۲۔ شیاطین، ۳۔ مروہ، ۴۔ عفاریت، ۵۔ اعوان، ۶۔ غواصون، ۷۔ طیارون، ۸۔ توابع، ۹۔ قرنا اور ۱۰۔عمار۔
 جنات کی تین اہم خصوصیات یہ ہیں کہ ایک تو وہ نظر نہیں آتے، دوسری یہ کہ وہ جو شکل و صورت اختیار کرتے ہیں یا جس مخلوق کا روپ دھار یں ان کی آوزبھی اسی مخلوق جیسی ہو جاتی ہے، اور تیسری یہ کہ جب کوئی انسان انہیں کوئی بھی قسم دے تو وہ اس کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اہلِ جنات کی بے شمار قسمیں بتائی جاتی ہیں جن میں بعض انسانوں کی طرح بے حد خطرناک ، بعض بے ضرر، بعض قوی توبعض کمزوربھی ہوتے ہیں۔ ان کے کچھ گروہ انسانوں سے میل ملاپ کرنے میں عار نہیں سمجھتے بلکہ اس تعلق کو پسند بھی کرتے ہیں جبکہ ان کی ایک بڑی آبادی انسانوں سے گھل مل جانے کے خلاف ہوتی ہے ۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت نبوی سے پیشتر اہلِ جنات اور انسانوں کے درمیاں شادی بیاہ ہوا کرتی تھی۔ حضور صلعم کا حضرت ابو حریرہ سے بیان ہے کہ بیبی بلقیس ذوجہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں جنات میں سے تھی۔ فتاوائے سراجیہ میں جنات اور انسانوں کے باہمی نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا وزیر آصف بن برخیا بھی ایک جن تھا جس نے حضرت کے حکم پر کچھ پڑھ کر پھونکا تو سینکڑوں میل دور بیٹھی ہوئی بیبی بلقیس کا تخت پلک جھپکنے کی دیرحضرت سلیمان کی دربار میں پہنچ گیا ۔ اہل علم کا ماننا ہے کہ آصف برخیا اسمِ اعظم کا عامل تھا جس کے پڑہنے سے فرشتوں نے وہ عمل ممکن بنا یا تھا۔
اس سلسلے میں براق کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر اس طرح گیا ہے کہ وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندے (حضور صلعم) کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جن کے گرد ا گرد ہم نے برکتیں کر رکھی ہیں تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔ ایک حدیث میں اس سواری کے جانور کو ایک گھوڑا بیان کیا گیا ہے لیکن بیشتر حدیثو ں میں اسے براق یا ابراق کہہ کر اس کا حلیہ خچر اور گدھے کی درمیانی جسامت کا جانور بتایا گیا ہے جس کے کان لمبے، خوبصورت زین اور لگام سجی ہوئی تھی۔ جس کا رنگ سفید ، جسم پر حیران کردینے والی چمک اور رفتار بہت تیز تھی۔ اس جانور کا ہر قدم حدِ نظر تک فاصلہ طے کرتا تھا جبکہ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس کی پنڈلیوں کے ساتھ پر لگے ہوئے تھے ۔ الہامی کتابوں میں اس سے پہلے بھی براق سے ملتی جلتی سواریوں کا ذکر نبیوں کی زندگیوں میں ملتا ہے۔ مصوروں نے براق کی ایسی بھی تصویریں بنائیں جن میں براق کا چہرہ عورت کا باقی جسم گھوڑے کا دکھا یا گیا ہے جس کی کمر کے دونوں طرف بڑے بڑے پر تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ براق اصل میں کونسی مخلوق تھی ، وہ کوئی فرشتہ تھا یاکوئی دوسری مخلوق یا پھر وہ بھی اہل جنات میں سے تھا۔ کیوں کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ جب حضور صلعم اس پر سوار ہونے لگے تو پہلے اس نے بھی شیطان کی طرح منہ زوری دکھاکر سرکشی سے دم ہلائی تھی جس پر حضرت جبرائیل نے جو براق کو آپ صلعم کی سواری کے لئے لائے تھے اس کی سرزنش کی کہ اے براق خدا کی قسم ایسا عظیم الشان انسان تجھ پر کبھی سوار نہیں ہواہوگا۔ حضرت جبرائیل کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس براق پر پہلے بھی سواریاں ہوتی رہی ہوں گی ۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ وہ کس قسم کی مخلوق تھا جسے آسمانوں پراس جگہ جانے کی اجازت تھی جہاں حضرت جبرائیل جیسا فرشتہ بھی نہیں جا سکتا تھا، کیا وہ بھی عزازیل کی طرح کوئی خدا کا برگزیدہ جن تھا۔
جنات کا مذہب و عقائد۔
جنات مذاہب کے لحاظ سے انسانوں کی طرح ہیں، وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں، ہندو، عیسائی، لادین، ڈیڈھ، یہودی بھی، ان میں قدریہ بھی ہیں، مرجیہ بھی ، رافضی بھی ہیں، تفضیلیہ بھی ، مجوسی بھی توستارہ پرست بھی۔ انسانوں کی طرح ہی جنات عقائد کے لحاظ سے مختلف گروہوں اور قوموں میں تقسیم ہوتے ہیں ہیں۔ جنات کے فرقوں کے متعلق تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ جنات کے چار فرقے ہیں جن میں سے پہلافرقہ ان کافر جنات کاہوتا ہے جو اپنے کفر کو پوشیدہ نہیں رکھتے اور بنی آدم کو جہاں تک ممکن ہوتا ہے بہکاتے ہیں یہ لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ان سے غیب کی خبریں پوچھی جائیں اور مصیبت کے وقت ان سے مدد مانگی جائے یہ لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ ہم تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے۔ یہ انسانوں میں شرک پھیلاتے ہیں اور انہیں اسلام قبول کرنے سے انہیں روکتے ہیں ، یہ کافروں کی بھی حتی المقدور مدد اور اعانت کرتے ہیں ۔
دوسرا فرقہ ان منافق جنات کا ہے جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں مگر دلی طورپر اپنے مکر و فریب سے انسانوں کی خرابی کے درپے رہتے ہیں ایسے خباث اپنے آپ کو بزرگوں کے نام سے مشہور کرکے لوگوں سے اپنی تکریم کراتے ہیں۔ تیسرا فرقہ ایسے فاسق جنات کا ہے جو انسانوں کو طرح طرح سے ستاتے ہیں ایسے جنات اپنے واسطے نذر ونیاز، مٹھائی ، پانی شربت وغیرہ سب کچھ قبول کرلیتے ہیں۔ چوتھا فرقہ ایسے چوردل جنات کا ہوتا ہے جو بعض انسانوں کی روح کو بد خلقی، غرور، کینہ یا حسد اور نجاست میں مبتلا کرکے آلودگی کی طرف کھنچ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ ڈالتے ہیں۔
جنات کا کیمیائی فارمولا۔
جنات گندھک کے کیمیاوی مواد سے وجود میں آئے ہیں ۔ سلفر اور فلورین گیسوں کے سالمات آگ سے بنی ہوئی مخلوق کے لئے مناسب مواد کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ ان دونوں گیسوں کے ایٹم ہائیڈروجن کے ایٹموں سے زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ جس طرح زمین پر پائی جانے والی تمام مخلوق کی کیمیاوی ترکیب میں ہائیڈروکابونزکے عنصر بروئے کارلائے گئے ہیں اسی طرح زمین یا دیگر سیاروں میں کوئی بھی مخلوق کاربونز مصالحے سے وجود میں آسکتی ہے ۔ مثال کے طور پر جیسے سلفر اور فلورین کے سالموں کی ترکیب سے جنات جیسی خصوصیتیں رکھنے والی مخلوق بھی جنم لے سکتی ہے کیوں کہ حیات مابعدالحیات کی رو سے سلفر اور فلورین کے مرکبات سے ایسی آتشین مخلوق کا وجود کوئی انہونی بات نہیں ہوگی جو آٹھ سو درجہء حرارت پر زندہ رہ سکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اسی طرح سلیکان نامی عنصر کے ایٹموں کوبھی ناری مخلوق کی تخلیق کے لئے بنیادی مصالحے کی حیثیت سے استعمال میں لایاجا سکتا ہے۔ علمِ کیمیا بتاتا ہے کہَ فلورو کاربونز اور سلیکان سے بنی ہوئی مخلوق ایسے لطیف جسموں کی مالک ہو سکتی ہے جن میں وقتِ ضرورت اپنے آپ کوہر قسم کے سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت ہوگی۔ ان کا جسمانی نظام غذا کی ضرورت سے بے نیاز ہو گا اوروہ زندہ رہنے کے لئے درختوں اورپودوں کی طرح براہِ راست سورج سے توانائی حاصل کر سکے گی۔
اگر کسی سیارے پر آٹھ سو ڈگری فارن ہائٹ درجہء حرات پایا جاتاہے تو جنات جیسی آتشین مخلوق وہاں بخوبی زندگی بسر کر سکتی ہے مثال کے طور پر مشتری انتہائی گرم سیارہ ہے جس پر ہماری زمین کی نباتات اور حیوانات ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتے البتہ سلیکان سے بنے ہوئے اجسام یا جنات وہاں سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح جدید سائنس کی رو سے کائنات میں زندگی کی بے شمارساختوں، ڈھانچوں اور لباسوں میں موجود ہونے کے امکانات ہیں اور عین ممکن ہے کہ زندگی کا ایک نمونہ ،ڈھانچہ یا لباس وہی ہو جو دیو ، پری ، جنات اور فرشتوں کے وجود جیساہو ، علم الحیات کی نئی شاخ مابعد الحیاتیات کا موضوع فکرزمین اور کائنات میں زندگی کے یہی امکانا ت ہیں۔
جن یا آتشین مخلوق۔
جنات کی تخلیق خالص آگ اور نارِ سموم یعنی گرم ہوا سے کی گئی ہے اس لئے ان کی جسمانی ساخت کی خاک زادوں سے قطعی مختلف ہونی چاہیے۔ نارِ سموم ایسی گیس کو کہاجاتا ہے جس میں گرمی ہو نہ دھواں، جو ہوا کی طرح خلا میں رواں دواں رہتی ہو ، جس کے نزدیک وقت اور فاصلہ بے معنی چیز ہو۔ یہ بھی ممکن ہے خالص نارسموم سے بنے ہوئے جاندارکائنات میں پھیلے ہوئے سیاروں کے درمیاں روشنی کی طرح ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہوں اور وہ مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت رکھنے کے ساتھ غذاکھانے کے مسئلے سے بھی بے نیاز ہو اور وہ اپنی عظیم الشان قوتوں کے انوسار ٹھوس جسموں سے گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ علمی، مذہبی اور سائنسی لحاظ سے جنات کی جو خصوصیات ہمارے علم میں آئیں ہیں ان میں سے بیشتر مذکورہ بالا خصوصیتوں ملتی جلتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جنات کے بارے میں روایتوں ،کہانیوں اورمشاہدوں سے پتہ چلتا ہے کہ جنات کھانا کھاتے ہیں۔ میرے بھائی جاوید رضاموریوکی ایک علی رامش راکشی نامی جن کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی جو ہمارے ایک عزیز صدا بھٹی کے جسم میں سرایت کیا کرتا تھا۔ جاوید نے بتایاکہ ایک مرتبہ ہم رحمت پور محلہ میں اپنے دوست گاد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ صدا پر جن آگیا اور روٹی کھانے کی فرمائش کی اور بیٹھے بیٹھے بیس پچیس روٹیا ں کھاگیااور کچھ بچی روٹیاں اس نے یہ کہہ کہ کر صدابھٹی کے جیکٹ کی جیب میں رکھ لیں کہ وہ اپنے دو بچوں کے لے جائے گا۔ کچھ دیر بعد جب علی رامش راکشی لڑکے کے جسم سے چلا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ جیکٹ کی جیب میں سے روٹیاں بھی غائب تھیں۔ اسی بات کی تصدیق سائیں ارباب شاہ نے بھی کی کہ وہ بالکل انسانوں کی طرح کھانا کھاتے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ۔
کیا جنات کو اپنی اصل صورت و شکل میں دیکھنا ممکن ہے؟۔
امام شافعی کے نزدیک اس شخص کی شہادت مردود ہے جو یہ کہتا ہے کہ میں نے جن کو اس کی اصل شکل و صورت میں دیکھا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں آکر دکھائی دے سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنات اپنی اصل صور ت میں کسی کو نظر نہیں آتے اس لئے کہ ان کا جسم لطیف ہوتا ہے کثیف جسم کی آنکھوں سے لطیف چیز دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر میں سینکڑوں ایسے انسانوں سے ملا ہوں جنہوں نے جنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جن کی مجموعی بیان ہے کہ وہ قد میں تین فٹ سے زیادہ کے نظر نہیں آتے گھومنے پھرنے میں انسان کے پانچ سات سالہ بچوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ میری بڑی بہن افتخار موریوکی والدہ کو بھی ایک بڑے عرصے سے اہل جنات نے مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا اس نے بھی سینکڑوں جنات دیکھے اس نے بتایا کہ میری نظر میں صرف ایک بزرگ جن ایسا آیا جو قد کاٹھ میں مکمل انسانوں کی طرح تھا ورنہ سارے کے سارے کامران(اس کے پوتے جو مشکل سے چھ سال کا ہوگا)کے قد کے ہوں گے اور ان کے جسموں پر بھورے رنگ کے بال بھی تھے۔
جنات کے اثرات۔
اہلِ جنات جس طرح مختلف مذاہب اور فرقوں سے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح طبیعت اور رحجانوں کے حساب سے کچھ صلح جو ہیں تو کچھ ٖغلط کار ،کچھ نیک ہیں تو کئی بدکار، ان میں اچھے بھی ہیں تو بدمعاش بھی۔ نیک انسانوں کی طرح نیک جنات بھی دوسری مخلوق کو آزار پہنچانے کو گناہ سمجھتے ہیں مگرشریرِ جنات انسان ذات کو ستانے کے قبیح کام سے باز نہیں آتے ۔ ساتویں اقلیم کے بادشا جنات اور مسلمان جنات سے ملاقات کے نتیجہ میں علامہ مغربی تلمسانی نے شریر جنات کی ایذا رسانی کے متعلق اسمائیل وزیر شاہ جنات کا قول نقل کیا ہے کہ ۔ جنات عورتوں اور مردوں کو ستایا کرتے ہیں ۔ ان کی بیشمارا قسام ہیں جن میں سے بیشتر کے بارے میں مجھے علم ہے۔ جنات کی ایسی بھی اقوام ہیں جن میں ستر ہزار قبیلے ہیں اور ہر قبیلے میں ستر ہزار افرادہوتے ہیں ان کی آبادی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آسمان سے سوئی پھینکی جائے تو وہ زمین پرنہیں گرے گی بلکہ ان کے سروں پر رک جائے گی۔
جنات کے رہنے کی جگہ ۔
روائتیں ہیں کہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے جنات کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا گیا تھا۔ پھر جب ان کی نسلی بود و باش کے لئے زمین پر جگہ نہ رہی تو کچھ جنات کو ہوا میں رہنے کی جگہ عطا فرمائی گئی۔ ابلیس اور اس کی اولاد کوبھی ہوا میں رہنے کی جگہ دی گئی۔ حضرت ابن لباس کی روایت ہے کہ جنات کے ہر گروہ کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ مقرر تھی۔ جنات ان مقامات سے وحی الٰہی منکر اپنی طرف سے کچھ باتیں ملاکر کاہنوں سے بیان کرتے تھے ۔ حیاۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے جنات کو تین اقسام میں پیدا کیا ہے ایک قسم جنات کی وہ ہے جو حشرات العرض کی صورت میں زمین میں موجود ہیں، دوسری قسم وہ ہے جو فضا میں ہوا کی طرح رہتی ہے اور تیسری جنات کی قسم بنی آدم کی طرح ہے۔ جنات میں سے عفریت چشموں اور گڑھوں میں رہتے ہیں، شیاطین شہروں اور مقبروں دونوں جگہ آبادہوتے ہیں جبکہ طواغیت خون آلودہ جگہہوں پر بود و باش رکھتے ہیں۔ انہی کی ایک قوم زذابعہ ہوا ؤں میں رہتی ہے او ر بعض بڑے بڑے شیطان آگ کے قریب مسکن رکھتے ہیں اور بعض تواقیف عفاریت یعنی وہ جنات جو عورتوں کی شکل میں متشکل ہوتے ہیں بڑے بڑے درختوں کے پاس (باغات میں)مقام رکھتے ہیں جبکہ بعض پہاڑوں اور ویران مقامات پر ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں۔
شیطان ، اس کا خاندا ن اور اس کے حواری چوں کہ ہوا میں رہتے تھے اس لئے جب وہ ہوا میں رہتے ہوئے گھبرائے تو خدا تعالی سے زمین پر رہنے کی درخواست کی جو قبول کی گئی مگر جب وہ زمین پر آباد ہوئے تو یہاں بھی شرات سے باز نہیں آئے اور گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو زمین نے بارگاہ یزدان میں ان کی شرارتوں کے خلاف شکایت کی جس پر خدا تعالیٰ نے اسے تسلی دی کہ میں ان شریر وں کی ہدایت کے لئے اپنے رسول بھیجوں گاحضرت نکعب احبار سے روایت ہے کہ جنات کی امت کے لئے آٹھ سو سال تک آٹھ سو رسول بھیجے گئے یعنی ہر سال کے حساب سے ایک رسول جیسا کہ عامر بن عمیر، بن الجان، صاعق بن ماعق بن مارد، بن الحیان وغیرہ مگر جنات ان سب کو قتل کرتے رہے ۔
شیطان کی حقیقت۔
شیطان اصل میں ایک جن ہے جس کا اصل نام عزازیل تھا ، جس طرح حضرت آدم علیہ السلام تمام انسانوں کا جدِ امجد ہے اسی طرح شیطان تمام جنات کا باپ ہے اس نے جنات کے ایک قبیلے بنواالجان کی ایک لڑکی سے شادی کی تھی جس سے اس کی نسل بڑھی۔ اس نے اپنی عبادت اور ریاضت سے خدا تعالی کے پیارے بندوں میں مقام حاصل کرلیا تھا مگر ایک لغزش کی بدولت ربوی لعنت کا سزاوار ہوکر ابلیس بن گیااوراس کا خوبصورت چہرہ بگاڑ دیا گیا۔ ایک دور میں ابلیس معلم الملکوت یعنی فرشتوں کا استاد تھا جو عرش کے نیچے ممبر پر نور کے جھنڈے کے سائے تلے بیٹھ کر فرشتوں کو درس دیا کرتا تھا اوراس کے رہنے کی جگہ جنت میں تھی۔ روایت ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے فرشتے سو سے پانچ سوسال تک آدم کو کئے ہوئے سجدے میں رہے جب انہوں نے سر اٹھایا تو ابلیس کو اسی طرح کھڑے ہوئے پایامگر اس کی شکل بگڑ چکی تھی۔ خدا تعالی ٰ نے پوچھا کہ تم نے سجدہ کیوں نہیں کیا تواس نے جواب دیا کہ خلقتنی من نار خلقتہ من طین یعنی مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کومٹی سے ، بھلا افضل بھی مفضول کو سجدہ کرتا ہے۔ شیطان مخلوق میں پہلا جاندار تھا اور دوسرا آدم جنہوں نے خدا تعالی کے حکم کی خلاف ورزی کی اور دونوں کو اس کی سزابھی ملی اور وہ عداوت جوآدم اور ابلیس کے درمیاں جنت سے شروع ہوئی تھی بنی آدم اور بنی شیطان میں آج تک چل رہی ہے۔
جنات اور شیطان دونوں اصل کے اعتبار سے ایک ہی مخلوق ہیں مگر ان میں جوایمانداراور انسان دوست ہیں انہیں جنات کے نام سے اور جو شرارتی یا بے ایمان ہیں انہیں شیطان کہا جاتا ہے۔ کفر، بدعت، سفائر، مباحات اور غیر افضل اعمال کی ترغیب وغیرہ شیطان کے انسانوں کوصراط المستقیم سے بھٹکانے کے مورچے ہیں ۔ طبرانی میں روایت ہے کہ ابلیس حضور صلعم کی پیدائش پر اتنا رویاتھا کہ اس کے سارے پیروکار جمع ہوگئے تو اس نے ان سے کہا اب تم ناامید ہوجاؤ کیوں کہ تم سے رسولِ خدا کی امت کبھی بھی مرتد نہیں ہوسکے گی البتہ ان کے درمیاں دین کی باتوں کو بنیاد بناکر فتنہ ڈالو، نوحہ گر ی اورشعر گوئی کو رواج دو۔ حضور صلعم کا قول ہے کہ ہر گھنگھرو کے ساتھ ایک شیطان لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ حیواۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ ابلیس کی داہنی ران میں مرد کی شرمگاہ جبکہ عورت کی شرمگاہ بائیں ران میں ہوتی ہے جس سے ہر روز دس انڈے نکلتے ہیں۔
حضرت مجاہد کے بقول شیطان نے اپنے اولادوں کو مختلف کاموں کے لئے مامور کر رکھا ہے اور ان میں سے اہم کے نام و کام مندرجہ ذیل ہیں۔
لاقیس، ولہان۔ یہ دونوں وضو اور نماز پر مامور ہیں اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
نیعاف۔ یہ لڑکا صحرا میں شیطانیت پھیلاتا ہے۔
زلنبور۔ یہ بازاروں پر مامور ہوتے ہیں لوگوں کو جھوٹی تعریفوں اور قسموں پر اکساتا ہے۔
بشر۔ یہ شیطان مصیبت زدہ لوگوں کو جہالت کے کاموں پر ترغیب دیتا ہے جیسا کہ نوحہ گری،ماتم، گریبان چاک کرنا، چہرے کو نوچنا وغیرہ۔
ابیض۔ یہ زناکو پھیلانے پر مامور ہے اور مخصوص وقت کے دوران عورت اور مرد کی شرمگاہوں پر مامور ہوتا ہے۔
واسم۔ ان کا کام ہے کہ جب کوئی شخص سلام کئے یا اللہ کا نام لئے بغیر گھر میں داخل ہو تو گھر والوں میں فساد کرائیں۔
مطوس۔ ان کو کام دیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیاں غلط اوربے بنیاد باتیں پھیلائیں۔
مسبوط ۔ لوگوں کو جھوٹ بولنے پر اکساناان کے فرائض میں شامل ہے۔

کیا انسانوں کو نادیدہ مخلوقات سے ڈرنا چاہیے؟۔
اس مخلوق کی جسمانی ترکیب اور دماغی ساخت انسان سے مختلف اور کم درجے کی مگر ایسے عناصر سے بنی ہوتی کہ ان کے جسم نظر بھی آسکتے ہیں نہیں بھی آسکتے، ان میں اپنی مرضی کی ہر صورت اختیار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی وہ انسانی دماغ کی طاقتور لہروں سے خوفزدہ رہتے ہیں کیوں کہ انسان کے اعصابی نظام اور دل و دماغ سے نکلنے والی طول موج کی لہریں ان کے وجود کے لئے زہریلی گیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جس طرح آج کا انسان دوسری عنصری قوتوں جیسا کہ بھاپ، بجلی ، ایٹمی توانائی اور مقناطیسیت وغیرہ کوتسخیر کر کے انہیں اپنے مفادمیں استعمال کر رہا ہے اسی طرح اپنی خود اعتمادی اور قوت ارادی سے ان عنصر زاد مخلوقات کو تابع بنا یاجا سکتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کوآسیب ، جنات یا چھلاؤں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

آسیب کیا ہوتا ہے؟۔
یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ قوی ارادہ رکھنے والے انسانوں پر نہ عالم مادی کی قوتین اثر انداز ہوتی ہیں نہ عالم ارواح کی۔ تصوفی پیروکار کہتے ہیں کہ انسان کا ارادہ بجائے خود مشیت الٰہی ہے جسے بروئے کار لاکر وہ ظاہر ی اور باطنی کائناتوں کو مسخر کر سکتا ہے۔ انسان کے اندر جتنی صفائی، قلب میں جتنی پاگیزگی اور ذہن میں مثبت جذبات جتنی فراوانی سے ہوں گے اس کے سامنے کائنات کی تمام قوتیں اتنی ہی حقیر ہوں گی۔ لیکن اگر کسی انسان کا ارادہ یا ذہن کمزور اور قلبی دنیا آلودہ ہوگی تو مادی اور ارواح دنیا کی قوتیں اس پر آسانی سے اثر انداز ہوجاتی ہیں جنہیں دوسرے لفظوں میں آسیب، سایہ یا بھوت پریت بھی کہا جاتا ہے۔
علم الارواح کامطالعہ اپنے الفاظ میں بتاتا ہے کہ فضا میں کچھ کم شعور توانائیاں کارفرما ہوتی ہیں جنہیں ہم ایک دھندلی یا ادھوری شخصیت کی مثال دے سکتے ہیں، ان نیم تاریک آوارہ گردوں کی اکثر حرکات غیر ارادی اور خود کار ہوتی ہیں جو انسانی شعور اور ارادے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ خلا میں تیرنے والی یہ قوتیں کردوں اور اکائیوں میں تقسیم ہیں اورجوتمام کی تمام محدود اور ناقص وجود کی مالک ہوتی ہیں، انہی اکائیوں کو عنصری مخلوق یا قوائے عنصری یا آسیب بھی کہا جاتا ہے۔

آسیب زدگی اور مالیخولیا کی حقیقت۔
جہاں تک آسیب زدگی کا تعلق ہے تو انسانوں پر واقع ہونے والے اس قسم کے اکثر واقعات جنہیں ہم آسیب زدگی یاجناتی دورے سمجھتے ہیں محض تقسیم شخصیت اور مالیخولیاکی بیماری کے سبب ہوتے ہیں جن کی بنیاد خالص اعصابی ، دماغی ، جذباتی اور ذہنی ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کچھ واقعات کی دیگر توجیہات بھی ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک آسیب زدگی بھی ممکن ہے۔ آسیب زدہ مریضوں کے ذہن کی چھان بین کے بعد نفس انسانی کے بارے میں عجیب و غریب معلومات ملتی ہیں کہ کسی آسیب زدہ، جن گرفتہ یا مالیخولیا کے مریض کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔ جن گرفتہ افراد کی دو شخصیتیں ہوتی ہیں، ایک آسیبی یا جناتی اوردوسری حقیقی ( نارمل) شخصیت اور یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے انجان اور متضادپائی گئیں ہیں جو اکثر اوقات ایک حد تک خود مختار بھی ہوتی ہیں۔ جب انسانی ذہن کا ایک حصہ (مثلاً آسیب زدہ)بروئے کار آتا ہے تو وہ مریض کے تمام نظام تصورات، نظام جذبات، نظام محسوسات ،آواز ونداز، آنکھوں کے اشارے ، چہرے کی رنگت ، حرکاتِ جسم الغرض تمام کردار کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے اور جب ذہن کا دوسرا حصہ یا دوسری شخصیت ابھرتی ہے تو وہ مریض بالکل الگ رنگ و روپ میں نظر آتا ہے۔
جس طرح ہر نارمل شخص کسی نہ کسی وقت ایب نارمل ہوتا ہے اسی طرح دنیا میں دوہری، تہری بلکہ چوہری شخصیت کے مالک لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کی شخصیت خالص جذباتی وجوہات کے زیر اثر دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور جوں جوں ذہن کے ان کٹے ہوئے حصوں کے درمیاں جدائی کی خلیج چوڑی ہوتی چلی جاتی ہے توں توں ان کی مالیخولیائی کیفیت ، جذباتی کشمکش، اعصابی کمزوری اور نفسیاتی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر پاگل بھی ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ سے کچھ فرض کر لیتے ہیں۔
ہم اکثر اوقات سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو جن ہے مگر کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ کوئی جن یا بھوت نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے گھٹے ہوئے، دبائے ہوئے اور کچلے ہوئے طوفانی جذبات کاآسیب ہے جو مخصوص سماجی اور گھریلوحالات کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ ان تیز و تند جذبات کا ابلاؤ جب اپنی اندرونی کیفیات کے لئے اپنے ذہن میں موجود جگہ کم پاتا ہے تو وہ اپنی ہیجانی خواہشات کی نکاسی، اخراج یا اظہار کا جو ایک ذریعہ پیدا کر تا ہے وہ یہی جنون کا راستہ ہوتا ہے ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب انسان اپنی جذبات کی سلگتی ہوئی بارود کو مسلسل دبانے کی کوشش کرتا ہے تو ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب کسی اندرونی یا بیرونی تحریک سے مشتعل ہوکراس کے مقید جذبات جوالا مکھی کی طرح پھٹ کر انسان کو سچ مچ بھوت بنا دیتے ہیں ۔ اس قسم کے جذباتی حادثوں سے انسانی ذہن جو ایک ٹکڑے یا حصے کی طرح ہے وہ منتشر ہوکر متعدد ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ آسیب زدگی ، ہسٹریا، مرگی، دماغی دورے،اختلاج قلب، ہذیان، سوتے جاگتے بڑبڑانا ، نیند میں چلنا ،بے انتہا جذباتی ہیجان کے تحت سنگین ارتکابِ جرائم یا خودکشی جیسے تمام معاملات ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان جذباتی کیفیتوں کے اثرات نہ صرف ذہن پر شدید پڑتے ہیں بلکہ یہ جسم کو بھی اپنی لپیٹ میں لاکر طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔

کیا آسیب یا جنات سے ڈرنا چاہیے؟۔
اس مخلوق کی جسمانی ترکیب اور دماغی ساخت انسان سے مختلف اور کم درجے کی مگر ایسے عناصر سے بنی ہوتی کہ ان کے جسم نظر بھی آسکتے ہیں نہیں بھی آسکتے، ان میں اپنی مرضی کی ہر صورت اختیار کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی انسانی دماغ کی طاقتور لہروں سے خوفزدہ رہتے ہیں کیوں کہ انسان کے اعصابی نظام اور دل و دماغ سے نکلنے والی طول موج (ویو لینتھ) کی لہریں ان کے وجود کے لئے زہریلی گیس کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انسان نے جس طرح دوسری عنصری قوتوں جیسا کہ بھاپ، بجلی ، ایٹمی توانائی اور مقناطیسیت وغیرہ کوتسخیر کر کے انہیں اپنے مفادمیں استعمال کر رہا ہے اسی طرح اپنی خود اعتمادی اور قوت ارادی سے ان عنصر زاد مخلوقات کو تابع بنا یاجا سکتا ہے اس لئے کسی بھی شخص کوآسیب ، جنات یا چھلاؤں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔

جادو، جنات اور انکے شرعی معالج و علاج


جادو، جنات اور انکے شرعی معالج و علاج







جادو گری اور آسیب کا اثر بلاشبہ ایک شیطانی عمل ہے۔ قرآنِ کریم کے مطابق یہ خبیث انسانوں اور جنوں کا فعل ہے۔ تاریخی طور پر اس کفریہ فعل کا ارتکاب سب سے زیادہ یہود و نصاریٰ نے کیا ہے۔ اہل اسلام بھی اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، حالاں کہ تینوں سماوی مذاہب میں اس کی شدیدترین وعید سنائی گئی ہے۔

جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اسی طرح اس شیطانی عمل کا علاج بھی اس نے اپنے بندوں کو سجھایا ہے۔ راقم الحروف کو طویل عرصے سے یہ تشویش تھی کہ منفی اور غلط ذہنیت کے لوگ جادو یا اس کے علاج کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہیں جن کا سدباب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پھر اس پر مزید حسرت و افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان شیطانی اعمال و افعال کا اسلام کے نام پر ارتکاب کیا جاتا ہے۔ چناں چہ یہ مضمون اسی سلسلےکی ایک ادنیٰ کاوش ہے جس میں پانچ اساسی پہلوؤں کا کتاب وسنت اور تجربہ کی روشنی میں احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے:


1. 
جادو و ٹونہ اور آسیب زدگی کی علامات
2. 
غیرشرعی اور غلط معالجوں کی علامات
3. 
راسخ العقیدہ روحانی معالجین کی علامات
4. 
شریر جادو گروں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر
5. 
جادو اورسحر کا علاج و معالجہ

حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫ فرماتے ہیں:
''
علماے کرام کااس بات پراجماع ہےکہ درج ذیل تین شرائط کے ساتھ دم کرناجائز ہے:
1. 
دم کلام الٰہی ، اسمائےحسنیٰ، صفاتِ باری تعالیٰ کےذریعے یا مسنون دعاؤں سے ہونا چاہیے۔
2. 
دم مسنون الفا ظ میں اور خالص عربی زبان میں ہو ،قرآنی آیات اور دعاؤں کا ترجمہ نہ ہو۔
3. 
دم کرنے اور کروانے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ دم بذاتِ خود مؤثر نہیں بلکہ شفا دینے والی صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے۔دم وغیرہ تو اس کے حضور محض التجا و درخواست ہے ۔''
مذکورہ بالا تینوں شرائط کے علاوہ بھی مزید کچھ آداب ہیں، جن کی طرف مختلف کتبِ رقیہ شرعیہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند ایک اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں:

دم کروانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حرام کیفیت اورشرکیہ وکفریہ نہ ہو ، نیز نا پاک ونجس جگہوں اورقبرستان وغیرہ میں نہ ہو۔
اسی طرح کسی جادو گر سے علاج کروانا جائز نہیں کیونکہ جادو گرکے متعلق نبیﷺنے فرمایا:
«مَنْ أَتَى كَاهِنًا، أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ»

''
جو کسی کاہن (جادو گر) یا نجومی کے پاس آیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً اس نے محمدﷺ پر نازل ہونے والی شریعت کا انکارکیا ۔''
ایک اورحدیث میں ہے کہ
«مَنْ أتى عَرَّافًا فَسَأَلهُ عَنْ شَئٍ لم تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أربَعِيْنَ لَيْلَةً »4
''
جو آدمی کاہن کے پاس آیا اور اس سےکسی چیز کے متعلق سوال کیا تو اس کی چالیس دن نماز قبول نہیں کی جائےگی۔''


حصہ اوّل: جادو ٹونہ اورآسیب کی علامات
درج ذیل علامات میں سےکوئی ایک علامت اگر کسی شخص یا گھر کےاندرپائی جاتی ہو تو اسے شرعی معالج سے تصدیق کرالینی چاہیے جبکہ کچھ علامات تو بجائے خود جادو کی تصدیق کرتی ہیں ۔ ایسی علامات کی موجودگی میں قرآن وسنت کے ذریعے فوری علاج ضروری ہے بصورتِ دیگر غلط نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔جادو کی علامات دو طرح کی ہیں :


حالتِ نیند کی علامات حالتِ بیداری اور دورانِ دم ظاہر ہونے والی علامات
حالتِ نیند کی علامات

1. 
بےخوابی :انسان کافی دیر تک بالکل سو نہ سکے۔
2. 
قلق و ملال :کثرتِ بیداری کی وجہ سے طبیعت میں اکتاہٹ اور گھبراہٹ وغیرہ رہے ۔
3. 
گھٹن : خواب میں ایسامنظر دیکھنا کہ کوئی گلا دبا رہاہے، کوئی پیچھے لگاہواہےیا سینے کے اوپر دباؤ کی کیفیت ہے اور چاہتے ہوئے بھی کسی کو مدد کے لیے نہیں بلا پاتا۔
4. 
ڈراؤنے خواب : مثلاً خواب میں دیکھے کہ کوئی مجھے قتل کر رہا ہے، کنویں میں گرارہا ہے،چھت اوربلندی سے پھینک رہا ہےیاگر رہا ہے ۔
5. 
خواب میں سانپ،کتے ،بلی ،بھینس جیسے جانور وغیرہ دیکھے ۔
6. 
نیند کے دوران دانت پیسنا
7. 
نیند کے دوران ہنسنا یا کلام کرنا

حالتِ بیداری اور دوران دَم ظاہر ہونے والی علامات

1. 
ذکرِالٰہی:نماز،اطاعتِ الٰہی کےکاموں میں رکاوٹ ہونا
2. 
اذان یاتلاوت قرآن اورمسنون اذکارسن کربےچین ہونا
3. 
نصابی وغیر نصابی کتب،بالخصوص قرآنِ مجید پڑھتےہوئے سر درد،گھبراہٹ اور بے چینی کا محسوس ہونااور باربار امتحان میں فیل ہونا۔
4. 
دائمی سردردہونا
5. 
کسی عضو میں ایسادردہوکہ طب انسانی اس کےعلاج سے عاجزآچکی ہو۔
6. 
سوچ و بچار میں ذہنی انتشار کا شکار ہونا

7. 
ہر وقت سستی وکاہلی کا شکار ہونا
8. 
پریشان خیالی ،حواس باختگی اور شدید نسیان کا شکار ہونا
9. 
سینےمیں شدید گھٹن کا احساس،کبھی کبھی معدے،کمر ،اور کندھوں میں شدید درد کا ہونا
10. 
مختلف اوقات میں دورے پڑنا اورپاگلوں جیسی کیفیت طاری ہونا
11. 
کسی خاص جگہ مثلاً گھر یادفتر میں بے چینی وگھبراہٹ محسوس کرنا
12. 
کپڑے کَٹ جانا ،جسم پر نشانات،نیل پڑجانایا بلیڈوغیرہ سے زخم لگ جانا
13. 
خون اور پانی کے چھینٹے پڑنا
14. 
گھرمیں تعویذ،انڈے ، سوئیاں، کیل، دالیں ، مختلف پرندوں، جانوروں کا گوشت، جانوروں كی سِری (اکیلا سر ،بغیر جسم کے) وغیرہ کا آنا
15. 
جاگتےہوئےکسی کی موجودگی کااحساس ہونا
16. 
جاگتے،سوتےڈراؤنی آوازیں سنائی دینا
17. 
اندھیرےمیں بہت زیادہ خوف محسوس کرنا
18. 
کثرتِ وساوس اورشکوک وشبہات میں مبتلا ہونا
19. 
بیوی کو خاوند اور خاوند کو بیوی بدصورت لگنے لگے جب کہ وہ دونوں خوبصورت ہوں
20. 
اچانک بیوی یا دیگرافرادکے ساتھ نفرت یا محبت میں حد سے بڑھ جانا6
21. 
خلوت پسندی اورخاموشی کو ترجیح دینا اور محفلوں سے ہمیشہ دور رہنا
22. 
ساکن چیزکومتحرک اور متحرک چیزکوساکن دیکھنا
23. 
بے تکی باتیں کرنا ،ٹکٹکی باندھ کر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنا
24. 
کسی بھی کام کو مستقل بنیادوں پر نہ کر سکنا
25. 
عضوی مرگی کا ہونا7
26. 
جدید آلات کے ذریعہ مثلاً موبائل،فیس بک وغیرہ پر نہ سمجھ آنے والے پیغامات موصول ہونا

انتباہ:یاد رہے کہ یہ علامات زیادہ تر جادو و آسیب زدہ مریض میں پائی جاتی ہیں اوربسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا علامات میں سے بظاہر کوئی علامت بھی محسوس نہیں ہوتی، جب کہ حقیقت میں انسان ان میں سے کسی نہ کسی سےضرور متاثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ا س وقت زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے جب انسان اس طرح سحرزدہ بھی ہو اور وہ اسے تسلیم بھی نہ کرےاور محسوس بھی نہ کرے۔ لہٰذا ایسی صورت میں انسان فوراً قرآنِ مجید کی تلاوت اور مسنون اذکار کی پابندی کرے اورکسی صحیح العقیدہ معالج سے مشورہ بھی کرے۔



جادو اور جنات کے اثرات
جادو؍جنات کے اثرات چارطرح کے ہیں :

1.
کلی اثر:یعنی جادو پورے جسم پر حاوی ہو اور اس کی وجہ سے جسمانی کھچاؤاورتناؤ پیداہو جائے۔
2. 
جزوی اثر:جادو کا اثر جسم کے کسی عضو پرہو۔ مثلاً سر،کلائی ،ٹانگوںوغیرہ پر ۔
3. 
دائمی اثر:جادو کا اثر جسم پر عرصہ دراز تک رہے ۔
4. 
عارضی اثر :جادو چندمنٹوں سے زیادہ اثر نہ رکھے،مثلاً جس طرح شیطانی خواب آنا اور پریشان کن نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہونا



حصّہ دوم: معالجوں کی اقسام، طریقے اور علامات
معالجین(دم کرنے والوں) کی تین اقسام ہیں:

1. 
وہ معالج جو قرآن وسنت کی روشنی میں علاج کرے۔


2. 
وہ معالج جوٹونےٹوٹکے، شعبدہ بازی،متاثر کن قسم کے کرتب دکھا کر اور قرآنی وغیر قرآنی فال نکال کرعلاج کرے۔ مثلاً ہاتھ کی صفائی سے سوئیاں ،کیل ،بال، دھاگے، تعویذات اور پتلے وغیرہ نکا لے یا کیمیائی مواد سے کوئی چیز جلا دے یا خاص قسم کی بوٹی سونگھا کر بےہوش کردے وغیرہ۔


3. 
وہ معالج جوجنوں وشیطانوں، ستاروں اور سیاروں کی غیرمرئی قوتوں کی مددحاصل کرکےعقل کو حیران کرنے والےطلسمات سےجادو کاعلاج کرے۔


جنات اورجادو کو جادوگر کیسے ختم کرتا ہے؟
جادوگر چار غیر شرعی طریقوں کے ذریعے مریض کے جسم سے جادواور جنات کو نکالتا ہے:

پہلاطریقہ: جنات اور شیاطین کی خوشنودی کے ذریعے:

مریض سے بعض شرکیہ اورحرام کاموں کا ارتکاب کرواکے وہ جنات کی خوشنودی چاہے، مثلاًجنات کے نام پر صدقہ وخیرات اورجانورذبح کروائے اور حرام چیزوں کے استعمال کا کہے۔

دوسرا طریقہ: جنات اور شیاطین سے صلح کے ذریعے:

اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مریض کے اہل خانہ ایک روٹی پر نمک رکھ کر اسے فضا میں اُچھالتے ہیں، اسے شیاطین کے ہاں 'جنوں کے لیے قربانی' کہا جاتا ہے۔ اس سے گویا شیطان، جنوں اور جادو سے متاثرہ شخص کے درمیان صلح ہو جاتی ہے اور وہ اس سے اپنے نام کی قربانی لے کر اس کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض لوگ ایسے کاموں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور ان کے ارتکاب میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کرتے، حالانکہ یہ عقیدے سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان کی بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس پر نبی مکرمﷺ کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ ایک آدمی مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور ایک آدمی مکھی کے سبب ہی جہنم میں چلا گیا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللّٰہ کے رسول! ایسا کیونکر ہوا...؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: دو آدمی ایک ایسی بستی کے پاس سے گزرے کہ جہاں کے باسیوں کا ایک بُت تھا اور ان کا قانون تھا کہ کوئی بھی شخص وہاں سے تب تک گزر نہیں سکتا تھا جب تک کہ اس پر کوئی چیز قربان نہ کرے۔ لہٰذا اُنہوں نے اُن دونوں میں سے ایک سے کہا: اس پر کوئی چیز قربان کر کے چڑھاوا چڑھاؤ۔ اس نے کہا: میرے پاس تو کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: کوئی بھی چیز چڑھا دو، خواہ ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے مکھی پکڑی اور اس بُت پرقربان کر دی۔ پھر انہوں نے دوسرے سے کہا کہ تم بھی اس پر کوئی قربانی چڑھاؤ۔ اس نے جواب دیا: ما كنتُ لأقرب لأحد شيئًا دون الله عز وجل فضربوا عنقه، فدخل الجنة.میں اللّٰہ کے سوا کسی کے لیے کوئی قربانی نہیں دوں گا اور نہ ہی کسی غیراللّٰہ پر کوئی چڑھاوا چڑھاؤں گا۔ اس بُت کے پجاریوں نے اس کی گردن اُڑا دی۔ یوں یہ شخص جنت میں چلا گیا اور پہلا شخص جہنم میں چلا گیا۔8

تیسرا طریقہ: رقص و سرود کے ذریعے:

جن نکالنے کا یہ طریقہ بدترین اور آزمائش کن ہے، یہی وہ طریقہ ہے جس میں شرکیہ اور غیرشرعی افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ رقص وسرود کی اجتماعی محافل،دورانِ رقص بے حیائی کا ارتکاب،مدہوش کن خوشبو اور شمع جلانا اسی طریقہ میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک رسم سی ہے، اس میں شیاطین کی پرستش کی جاتی ہے اور آخر میں حاضرین محفل میں سے ایک شخص غیراللّٰہ کے نام پر کیا گیا ذبیحہ مریض کے سر پر لے کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کا خون آسیب زدہ شخص کے جسم پر ملا جاتا ہے۔ اور آخرمیں ایک عورت تمام مردوں کے سامنے برہنہ ہوتی ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ اختلاط، رقص و سرود، غیر اللّٰہ کے نام پر جانور ذبح کرنا اور شیطان کی پرستش کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے!!

چوتھا طریقہ: جادوئی جبر کے ذریعے:

اس طریقے سے جادو کو جادو کے ذریعے ہی ختم کیا جاتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عامل مریض کے اندر موجود جن کو بھگانے کے لیے بڑے اور طاقتور شیاطین مستقل طور پر اس پہ مسلط کر دیتا ہے، جو بظاہر تو اس کو سکون دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس کے دِین و دُنیا کو برباد کر دیتا ہے۔ جس سے درج ذیل نقصانات ہوتے ہیں:
1. 
حدیثِ مبارکہ کی رُو سے جادوگر سے صرف پوچھ گچھ کرنا ہی اس قدر کبیرہ گناہ ہے کہ انسان کی چالیس دِن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ أَتٰى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَیْئٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِینَ لَیْلَةً»
''
جو شخص کاہن (جادوگر) کے پاس آیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔''9

2. 
جب صرف پوچھ گچھ کرنے سے ہی اتنا بڑا دِینی نقصان ہو سکتا ہے تو پھر ان سے باقاعدہ علاج کروانے اور اس سے متاثر ہو کر اس سے علاج کروانے والے کا کیا حال ہو گا؟! ایسے شخص کے متعلق نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
«مَنْ أَتَى کَاهِنًا فَسَأَلَه وَصَدَّقَهُ بِمَا یَقُولُ، فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ عَلَیْهِ السَّلَامُ»
''
جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا، اس سے کوئی بات پوچھی اور اس کی بات کی تصدیق کی، تو اس نے اس كا انكار كيا جو محمدﷺ پر نازل ہوا۔''
مذکورہ تمام طریقے ایسے ہیں کہ جن کے ذریعے جادوزدہ مریض کا علاج کیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ اس سے جن نکلنے کی بجائے اور بھی پختہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اسے اپنے جیسا ایک ناپاک جسم مل جاتا ہے جو کسی بھی طرح کے حرام کام کے ارتکاب میں ہچکچاہٹ نہیں دِکھاتا۔



غیر شرعی عامل ومعالج کی علامات

درج ذیل علامات میں سےکوئی علامت اگر کسی علاج کرنےوالے کےاندرپائی جاتی ہو تو یقین کر لینا چاہیے کہ یہ جادو گر ہے اورایسےشخص سے علاج کروانا بسااوقات انسان کو کفر تک پہنچادیتا ہے:

1. 
روحانی معالج مریض ، اس کی والدہ یا سلسلۂنسب میں سے کسی کا بھی نام پوچھے۔
2. 
روحانی معالج مریض کےکپڑوں میں سےکوئی کپڑا،قمیص،ٹوپی، رومال ،تصویروغیرہ منگوائے۔
3. 
جادوگردورانِ علاج سمجھ میں نہ آنے والے کلمات زبان سےادا کرے۔
4. 
مریض کو بعض جائز وحلا ل چیزوں کے استعمال سےروکے، مثلاً بڑا گوشت نہیں کھانا،فوتگی پر نہیں جانا، اتنے دن نہانا نہیں وغیرہ۔
5. 
جادو والے طلسم لکھے، تعویذات تیار کرکے دے، ان پرخانوں والی شکلوں میں حروف واعداد لکھ کر دے ،اللّٰہ کا کلام تحریر کرکے اس کو کاٹ کاٹ کر استعمال کرنے کی تلقین کرے اورغیر اللّٰہ کی قسم دلا کر بحق فلاں بن فلاں پڑھے یالکھ کردے۔
6. 
غیر محرم عورتوں کوچھوئے اور خلوت ؍علیحدگی میں علاج کرے۔
7. 
کسی جانور یا پرندے کوذبح کرنے کا مطالبہ کرےاور اس کا خون مریض کے بدن پر ملنے کاکہے۔
8. 
روحانی معالج نے چلہ کشی کرکےاپنے مخصوص جنات رکھے ہوں اور پھر اُنہیں کسی بھی صورت میں حاضر کرکے اُن سے متعلقہ اُمور میں مدد لے۔
9. 
مریض کو کچھ ایسی چیزیں دے جنہیں زمین یا قبرستان میں دفن کرنےیا لٹکانے کا کہے ۔
10. 
صحیح اسلامی عقائد اور صوم و صلاۃ سے لاپرواہی برتے، دینی وضع وقطع سے غفلت اختیار کرے اور حلال و حرام کے درمیان امتیاز روا نہ رکھے۔
11. 
سگریٹ نوشی اوردیگر منشیات کا شکار ہو۔

صحیح راسخ العقیدہ روحانی معالجین کی علامات

عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ چند الفاظ اور طریقے سیکھ لینے سے روحانی معالج بن بیٹھتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر وہی مثل صادق آتی ہے کہ ''نیم حکیم خطرۂجان اور نیم ملا خطرۂ ایمان''۔ یہ لوگ اپنا اور معاشرے کا نقصان کرتے ہیں۔ان کے پاس جانے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے۔ تاہم ذیل میں ہم عمومی طور پر چند صفات کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں جو ایک روحانی معالج کے اندر پایا جانا ضروری ہے :
1. 
سلف صالحین کےمطابق صحیح عقیدہ رکھتا ہوجوتمام صحابہ وتابعین اورتبع تابعین کا عقیدہ تھا اورجو ہر طرح کے شک و شبہ سے محفوظ ہے۔
2. 
اس کے قول وفعل میں توحید خالص جھلکتی ہو۔
3. 
اطاعتِ الٰہی کو ہر وقت بجالانے والا ہو جس کی وجہ سے شیطان ذلیل ورسوا ہوتا ہے۔
4. 
عملیات کاکام صرف رضاے الٰہی کےحصول کےلیے شروع کیا ہو۔
5. 
عالم دین ہویاکم ازکم حافظ وقاری ہواور جادو گر،جنات اور شیاطین کی چالوں کو سمجھتا ہو۔ دینی مسائل پر عبور رکھتا ہو اور دینی کام سے وابستہ ہو۔
6. 
تمام حرام اشیا سےپوری طرح اجتناب کرتا ہو۔
7. 
ہرحال میں زبان سےامر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرنے والا ہو۔ برائی کودیکھ کرخاموش بیٹھتا ہو اور نہ ہی کسی منکر پر خوش ہوتا ہو۔
8. 
اسلام کےبتائے ہوئےاخلاقیات پر عمل پیرا ہو اوررذائل اخلاق وعادات(جھوٹ، دھوکا، بخل، حرص، حسد اورکینہ وغیرہ) سے دور ہو۔
9. 
حلال وحرام کی تمیز کرنے اور ا س کے مطابق عمل کرنے والا ہو۔
10. 
کبائر سےمکمل اجتناب کرنےوالا اور صغائر سے حتی المقدور بچنےوالاہو۔
11. 
ظاہری وضع قطع میں شریعت کامکمل پابند ہو۔
12. 
مال کاحریص نہ ہو اوردوسروں کےمال پر نظر نہ رکھتاہو۔
13. 
دینی حلقوں اورعلما سے محبت رکھتا ہو۔
14. 
جنات اورشیاطین کے احوال اور ان کی چالوں کو مکمل جانتا ہو۔
15. 
جادو ٹونہ اور شیاطین کو بھگانےکا تجربہ اورمہارت رکھتا ہو۔
16. 
قرآنی اور مسنون عملیات سیکھے اور ہر قسم کے غیر شرعی عملیات ووظائف اور چلہ کشی سے بچتا ہو۔
17 .
لوگوں سےہمدردی رکھنےوالا ہو اور سائلین کی حالت سن کر اُنہیں فریبی دھوکا باز یا جعل ساز نہ سمجھتا ہو۔
18. 
انسانوں کی خوشی کےلیے شرعی احکام توڑنےپررضامند ہونے والا نہ ہو۔
19. 
یہ عقیدہ رکھتا ہوکہ اللّٰہ کاکلام جن و شیاطین پر اثر کرتاہے اور اس میں کسی تذبذب کا شکار نہ ہو۔
20. 
ثابت قدم اور پختہ مزاج ہو۔جلدباز، بےصبر اورمتلون مزاج نہ ہوکیوں کہ روحانی علاج ؍عملیات کوشروع کرنا توہر ایک کا اپنااختیار ہے لیکن اسےچھوڑنا نہایت خطرناک ہوتا ہے۔
21. 
معالج کے لیے شادی شدہ ہونامستحب ہے۔
22. 
لوگوں میں سے بالخصوص مریضوں کے رازوں کا مکمل امین ہو۔
23. 
عامل ذہنی اعتبار سے مضبوط الحواس اور جسمانی اعتبار سے بارعب اور طاقتور ہو کیونکہ بسا اوقات مریض سے کشتی وہاتھا پائی بھی ہو جاتی ہے۔
24. 
عامل اس کام کو دعوت دین کا بہت بڑا ذریعہ سمجھے اور اس کو دینی خاص مشن کے طور پر لے نہ کہ ہوس پرستی اور خود غرضی کا ذریعہ بنائے۔
25. 
عامل باحیا ہو اور دینی ومعاشرتی اعلیٰ اقدار کا حامل ہو اور نظر بد کے استعمال سے پرہیز کرے جو ہر گناہ کا پیش خیمہ ہے۔
26. 
لوگوں کی شفا اور عقیدے کی اصطلاح کا بے حد حریص ہو اس طرح ان کو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ذکر واذکار کا پابند بنائے۔
27. 
اپنے اور لوگوں کے اعمال کا یومیہ بنیاد پر محاسبہ کرے۔
28 .
جلوت اور خلوت میں ہمیشہ اپنے مریضوں کے لیے دعا گو ہو۔
29 .
اپنا اور اس عظیم مشن کا خیال کرتے ہوئے ہر اس کام کو اختیار کرنے کی کوششیں کرے جو اس کے شایان شان اور لائق احترام ہے اسی طرح ہر اس کام سے اجتناب کرے جو خود اس کی عزت، احترام اور دین کے منافی ہے۔

حصّہ سوم:جنات اور شیاطین سے بچاؤ کی تدابیر

جنات و شیاطین کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
1. 
اپنی نیت کو ہر وقت خالص رکھنا
2. 
اپنے عقائد درست رکھنا اور عبادات میں بھر پور محنت کرنا،خصوصاً نماز کا اہتمام کرنا
3. 
ہر دم اللّٰہ تعالیٰ پرمکمل توکل اور بھروسہ رکھنا
4. 
ہر وقت تقویٰ اورخوفِ الٰہی کو دل میں جگہ دینا
5. 
پورے دین پر استقامت اختیارکرنا خصوصاًارکان اسلام کی پاسداری کرنا
6. 
صبح و شام کے مسنون اذکار کی پابندی کرناجادوسے بچنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
7. 
کسی بل میں پیشاب کرنے یا ہڈی اور لید وغیرہ سے استنجا کرنے سے پرہیز کرنااور دعائے بیت الخلا «بسم الله اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» پڑھ کر پیشاب کرنا۔
8. 
اس موذی مرض سے بچنے کے لیے ہر وقت اللّٰہ جل جلالہٗ سے مدد طلب کرنا
9. 
ہر کام کی ابتدا میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا
10. 
دینی حوالےسے معاشرےمیں پھیلی ہوئی ہر طرح کی بدعات و خرافات سے دور رہنا،خصوصاً شرک ، کفر و نفاق سے اجتناب کا اہتمام کرنا، نیز کتاب و سنت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا
11. 
حرام خوری اور حرام کاری سے اپنی زبان، نگاہ اور پیٹ کو محفوظ رکھنا
12. 
شیطانی آلات اوربدکاری کاپیش خیمہ یعنی موسیقی ،گانے وغیرہ سننے سے مکمل پرہیز کرنا
13. 
غیر محرم عورتوں سے بد نظری ،خلوت اور مصافحہ کرنے سے اجتناب کرنا کیونکہ یہ شیطان کے جال اور پھندے ہیں۔
14. 
بدن،جگہ اورکپڑوں کی طہارت کامکمل اوربغیرکسی کوتاہی کے فوری اہتمام کرنا خصوصاً بچوں اور اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے، حالتِ جنابت واحتلام اور حالتِ حیض وغیرہ سے۔
15. 
زیادہ دیر غصّے ، نفسیاتی اور شہوانی خیالات میں اُلجھے رہنے سے بچنا
16.
ویران مقامات،حمام ،قبرستان وغیرہ میں ٹھہرنااور بالخصوص اندھیرےمیں اکیلےسونا یا بیٹھنا انتہائی نقصان دہ ہے۔
17. 
گھریلو اور خاندانی ناچاکیوں سے حتیٰ الوسع اجتناب کرنا۔ آپس میں صلہ رحمی اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنا
18. 
صبح نہار منہ سات عجوہ کھجوریں کھانا
19. 
قرآنی آیات اور مسنون اذکار کے سوا کوئی وظیفہ خاص تعداد ،خاص اوقات اورمتعین جگہوں میں بیٹھ کر نہ پڑھنا ۔
20. 
کثرت سے صدقہ وخیرات کرنا
21. 
اعمال صالحہ کو اپنی حقیقی غذا سمجھنا
22. 
پردے کی مکمل پابندی کرنا
23. 
عورت کے لیے ناخن بڑھانے، مساج کرنے اور بال کٹوانے سے بچنا
24. 
مرد کے لیے داڑھی کٹوانے، شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنے سے گریز کرنا
25.
غیبت ،حسد ، کینہ جھوٹ مذاق اور دیگر ملعون افعال سے بچنا
26. 
غلط لٹریچر پڑھنے، سننے اور لکھنے سے بچنا
27 .
گھروں میں تصاویر ،بت اور شوپیس کی شکل میں سٹیچو رکھنے سے یا لٹکانے سے بچنا
28 .
تمام گناہوں کو ترک کر کے توبہ نصوح اور کثرت سے دعا کرنا
مذکورہ بالا اُمور كی پابندی کرنے سے انسان شریر جادو گروں کے جادو اور حاسدوں کے حسد سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکتا ہے۔ان شاءاللّٰہ

حصّہ چہارم: جادو، نظربد اوردیگر روحانی امراض کاشرعی وظیفہ اورعلاج کے طریقے

جادو اور آسیب زدگی کا علاج درج ذیل طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:

1. 
کلونجی کے ذریعے علاج :کلونجی (Black Seeds)کےبارے میں
نبیﷺنےفرمایا:'' کلونجی موت کے سوا ہر مرض کے لیےباعثِ شفا ہے۔''11

2.
شہد کے ذریعےعلاج : مریض صبح نہار منہ حسبِ طبیعت دو چارچمچ شہد کھالے اور رات کو سوتےوقت ایک کپ گرم پانی میں شہد اور کلونجی ملا کر اس پر سورۃ الجن ،سورۃ الفاتحہ،چاروں قل، سات سات مرتبہ پڑھ کر دم کر کے اسے پی لے۔ایک ہفتے کے عمل سے ان شا اللّٰہ ٹھیک ہوجائے گا۔12 کوئی دوسرا آدمی بھی اس کو پڑھ کر دے سکتا ہے لیکن خود عمل کرنا زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔

3. 
عجوہ کھجوروں کے ذریعہ جادو کاعلاج : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«مَنِ اصْطَبَحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ، لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ اليَوْمَ سَمٌّ، وَلاَ سِحْرٌ»
''
جو صبح نہارمنہ سات عجوہ کجھوریں کھا لے، اس کورات ہونےتک اس دن کوئی زہراور جادو اثر نہیں کرے گا۔''

4.
سینگی کے ذریعہ جادوکا علاج:رسول اللّٰہ ﷺ نےفرمایا:
«الشِّفَاءُ في ثَلَاثَةٍ : في شَرْطَةِ مِحْجَمٍ ، أو شَرْبَةِ عَسَلٍ ، أو كَيَّةٍ بِنَارٍ ، وأنا أَنْهَى أُمَّتِي عن الْكَيِّ»
''
شفا تین چیزوں میں ہے: شہدپلانے، سینگی لگوانے اور آگ سے داغنے میں۔مگرمیں اپنی امت کو آگ سے داغ لگوانے سے منع کرتا ہوں۔''

5. 
بیری کے پتوں سے غسل کے ذریعے علاج : ابن بطال اور شیخ ابن باز رحمہمااللّٰہ نے ذکر کیا :
''
مریض بیری کے سات سبز پتے لے کر دو پتھروں کے درمیان یا کسی اور چیز سے کوٹ لے، پھر اسےاتنےپانی میں ڈال دے جو غسل کے لئے کافی ہو۔اس پردرودشریف،سورۃ الفاتحہ، آیت الکرسی،سورۃ بقرۃ کی آخری دو آیات ،چاروں قل، آیاتِ سحر 15ایک ایک مرتبہ پڑھ کر دم کرے۔ پھراس میں سے تین گھونٹ پی لے اور باقی پانی سے غسل کرلے۔ یہ عمل سات دن ہر روز تازہ پتوں پرکرے۔اس سےزیادہ دن بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ جو بھی جادو ہو گا،وہ ختم ہو جائے گا۔ ان شاءاللّٰہ

6. 
زجر وتوبیخ کے ذریعے علاج:نبیﷺنےایک آسیب زدہ آدمی پرمسلط جن کو ڈرایا دھمکایا اور فرمایا: أَعُوذُبِالله مِنكَ (تین مرتبہ) اَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللهِ(تین مرتبہ) اُخْرُجْ یَا عَدُوَّ اللهِ، أَنَا رَسُوْلُ اللهِ

7. 
زم زم اور بارش کے پانی سے علاج:مریض کو سب سےافضل اور مبارک پانی زمزم پلائیں جو حدیثِ نبوی کی رو سے غذاہے ۔
ایک حدیث کی رو سے آبِ زمزم باعثِ شفاہے ۔
اور بارش کے پانی کے حوالے سے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَنَزَّلنا مِنَ السَّماءِ ماءً مُبـٰرَ‌كًا ... ﴿٩... سورة ق
''
اورہم نے آسمان سےبرکت والاپانی اُتارا۔ ''

8.
صدقہ و خیرات کے ذریعے علاج:نبی ﷺ نےفرمایا:
''
صدقہ وخیرات مصیبتوں کو ٹالتا (ختم کرتا)ہے۔''20
اورصحیح حدیث کے مطابق نبیﷺ نے صدقہ کے ذریعہ علاج کرنے کا حکم فرمایا ہے۔21

9. 
اذان کے ذریعے علاج:نبیﷺ نےفرمایا :
''
جب اذان کہی جاتی ہے تو شیطان گندی ہوا چھوڑتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے اور وہاں جا کر رکتا ہے جہاں اذان کی آواز نہ سنائی دے رہی ہو۔ ''22

10 . جادو زدہ اشیا نکال کر اُنہیں ضائع کرنے کے ذریعے علاج:اس کے دو طریقےہیں :
1. مریض نمازِ عشا پڑھنے کے بعد مسنون اَذکار پڑھ کر اللّٰہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ رو کے دعا کرےاور وضو کر کے سنت کے مطابق سو جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ ٗ اپنے فضل وکرم سے بیداری یا خواب میں اس جگہ کا پتہ بتا دے گا۔ ان شاءاللّٰہ

2.
جادو زدہ آدمی پر مسنون دم کے دوران جن حاضرہو جائے تو اس سے پوچھیں کہ جادوگر کون ہے اور اس نے جادو زدہ اشیاکہاں چھپائی ہیں؟پھر اس کی بتائی ہوئی جگہ سے وہ اشیا نکال کرضائع کر دی جائیں اور جادو گر کو بھی آئندہ کے لئے تنبیہ کر دی جائے۔

ضائع کرنے کا طریقہ :جادو زدہ چیزوں پرمکمل مسنون وظیفہ پڑھ کر اُنہیں پانی میں بھگو دیں اور پانی عام گزر گاہ سے دور بہا دیں،یا چیزیں پڑھ کر جلا دیں۔


حوالہ جات
1.
فتح الباری شرح صحیح بخاری: 10؍206
2.
فتح الحق المبین فی احکام رقی الصرع والسحر والعین از ابوالبرا اسامہ بن یاسین،دارالمعانی، عمان ، اُردن
3.
مسنداحمد:15؍331، رقم 9536
4.
صحیح مسلم: 2230
5.
الردّالمبین علی بدع المعا لجین از ابراہیم عبد العلیم عبد البر :ص96
6.
تفسیرابن کثیر1؍144،السحروالحسد:ص:85،الصارم البتاراز وحید عبد السلام بالی:ص81
7.
الردّالمبین علی بدع المعا لجین از ابراہیم عبد العلیم عبد البر:ص76
8.
الردّالمبین علی بدع المعالجین:ص280
9.
الزهد ازامام احمد: ص15 (صحیح موقوفاً) ،ابونعیم فی حلیۃ الاولیا: 1؍203،... بحوالہ فتح المجید شرح کتاب التوحید148
10.
صحیح مسلم: ۲۲۳۰
11.
سنن ترمذی: ۱۳۵؛سنن ابن ماجہ: ۶۳۹
12.
صحیح بخاری: 5687
13.
معجزات الشفا از ابوالفدامحمدعزت :ص32بحوالہ فتح الحق المبین از ابو البراء اسامہ بن یاسین:151
14.
صحیح بخاری: 5779
15.
صحیح بخاری:5680

16. سورۃ اعراف:112تا117، سورۃ یونس:79تا82، سورۃ طہ:65 تا69

17. فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الطب،الفتاوی الذہبیہ فی الرقی الشرعیۃ ص:145؛ علاج الامراض بالقرآن والسنہ: 24 تا26، از شیخ ابن باز
18.
صحیح مسلم :542
19.
سنن ابن ماجہ: 3548صحیح، مسند احمد:4؍170، 29؍105رقم 17563،زاد المعاد4؍68
20.
صحیح مسلم:4؍1922
21.
صحیح ابن حبان،مسند بزار ،معجم طبرانی صغیر و کبیر ،صحیح الجامع:3435،3322
22.
مسند الشہاب: 1094
23.
صحیح الجامع: 2؍634،حدیث:3358
24.
صحیح بخاری: 1222، صحیح مسلم: 389
25.
صحيح بخاری مع الفتح: 10؍132،زاد المعاد: 4؍124 ،فتاوٰی بن باز:3؍228،فتاوی الذہبیہ از ڈاکٹر خالد بن عبد الرحمٰن الجریسی: ص

 

جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ حصہ اول

  جنات اور شیاطین جیسی نادیدہ مخلوقات کے وجودکی مذہبی ، تخلیقی ، سائنسی اور تحقیقی حقیقت کیاہے ؟ انسان ذات کی تاریخیں، ادب ،روایات وغیرہ میں...